لاہور (ویب ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے مبینہ طور پر زبردستی مذہب تبدیل کرنے والی 14 سالہ مسیحی لڑکی کو ان کے والد کے ساتھ بھیجنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصل آباد کے جاوید مسیح کی حبس بےجا سے متعلق درخواست پر سماعت کی، یہ درخواست چوہدری عبدالرشید ایڈووکیٹ نے پیش کی تھی۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ‘میری مسیحی بیٹی شالٹ مسیح کو اغوا کرنے کے بعد جبری طور پر اس کا مذہب تبدیل کروا کر ظفر نامی شخص کو فروخت کیا گیا’۔
انہوں نے اپنی درخواست میں مزید بتایا کہ ظفر نامی شخص نے ان کی بیٹی کے ساتھ زبردستی نکاح بھی کیا۔
دوران سماعت فیصل آباد کے تھانہ ٹھیکری والا کے اے ایس آئی حق نواز نے 14 سالہ مسیحی لڑکی کو عدالت میں پیش کیا۔
لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ انہیں اغوا کرنے بعد زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروایا گیا اور فروخت کیا گیا بعد ازاں ظفر نامی شخص سے ان کا نکاح بھی جبری طور پر کروایا گیا۔
متاثرہ لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔
جس پر عدالت عالیہ نے لڑکی کے بیان کی روشنی میں اسے اس کے والدین کے ساتھ بھیجنے کا حکم دے دی۔
خیال رہے کہ ملک میں زبردستی مذہب تبدیل کروا کر شادیاں کروانے کے حوالے سے مختلف مواقع پر متعدد رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔
اس سے قبل 24 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان نے سندھ سے 2 ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں ان دونوں لڑکیوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے اور اپنے شوہروں کے تحفظ کے لیے درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔