یروشلم (ڈیلی اردو/اے پی) اسرائیلی فوج میں غزہ میں جاری جنگ کے خلاف بولنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تقریباً 200 فوجیوں نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت جنگ بندی کو یقینی نہیں بناتی تو وہ لڑائی بند کر دیں گے۔
سات اسرائیلی فوجیوں نے اپنے انکار کی وجوہات پر ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو بے دریغ مارنے اور ان کے مکانوں کو جلانے کے حق میں نہیں ہیں۔
لڑائی سے انکار کرنے والے فوجیوں کا کہنا ہے کہ خط پر اگرچہ 200 دستخط ہیں، لیکن اور بھی بہت سے فوجی ہمارے خیالات سے متفق ہیں۔
فوجی خدمات سے انکار کا خط ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس پر لڑائی ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جنگ بندی پر بات چیت جاری ہے، اور صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے 20 جنوری سے قبل کسی معاہدے پر پہنچنے پر زور دیا ہے۔
نہتے فلسطینی کے قتل کا منظر بھولتا نہیں
یوتم ولک، جن کی عمر 28 سال ہے، اسرائیلی فوج کے بکتر بند کور میں ایک افسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کے قتل کا منظر ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ میں اسرائیل کے زیر قبضہ بفر زون میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر مجاز شخص کو گولی مار دینے کا حکم ہے۔ یوتم کا کہنا تھا کہ انہوں نے کم ازکم 12 افراد کو بفر زون میں گولیاں کھا کر گرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حماس بھی ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے
ولک کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ ہلاکتوں کی ذمہ دار حماس بھی ہے۔ ایک گرفتار فلسطینی نے بتایا تھا کہ حماس نے کچھ لوگوں کو بفر زون میں جانے کے لیے 25 ڈالر دیے تھے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اسرائیلی فوج کیا ردعمل دے گی۔
ولک کہتے ہیں کہ بفر زون میں آنے والوں کو مارنے سے پہلے فوج نے انتباہی گولیاں چلائیں تھیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ کسی نہتے کو ہلاک کرنے میں جلدی کی گئی۔
غزہ میں لڑنے سے انکار کرنے والے سات فوجیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہیں ایسے گھروں کو جلانے یا گرانے کا حکم دیا گیا تھا جن سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ انہوں نے فوجیوں کو گھروں کو لوٹتے اور ان کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا۔
کچھ فوجیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے غزہ میں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اسے ذہنی طور پر قبول کرنے میں وقت لگا۔ کئی دوسرے فوجیوں نے کہا کہ بعض واقعات ایسے تھے کہ ان کا فوری طور پر فوج کی نوکری چھوڑنے کو دل چاہا۔
ابتدا میں طاقت کے استعمال کو بات چیت پر دباؤ سمجھا تھا
ولک کا کہنا تھا کہ جب نومبر 2023 میں اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہوئی تو ان کا خیال تھا کہ طاقت کا ابتدائی استعمال دونوں فریقوں کو بات چیت کے لیے میز پر لا سکتا ہے۔ لیکن جنگ آگے بڑھتے بڑھتے اپنے 15 ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس عرصے میں انسانی زندگی کی قدر کو میں نے بکھرتے ہوئے دیکھا ہے۔
فوج کے میڈیکل شعبے سے وابستہ 27 سالہ یوول گرین نے غزہ میں دو ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ جنوری میں فوج کو چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے وہاں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اس کے ساتھ میں زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔
فوجیوں نے عبادت گاہوں تک میں لوٹ مار کی
ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے گھروں کی بے حرمتی کی۔ اسپتالوں کو نقصان پہنچایا۔ لوٹ مار کی، حتی ٰکہ عبادت گاہوں تک سے چیزیں لوٹ کر لے گئے۔
ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے گرین نے بتایا کہ اس کے کہ ان کے ایک کمانڈر نے فوجیوں کو ایک گھر کو، جس سے کوئی خطرہ نہیں تھا، جلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ حماس اسے استعمال کر سکے۔
بری فوج کے ایک سابق سپاہی نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے 2023 کے آخر میں دو ہفتوں کے دوران تقریباً 15 عمارتوں کو غیر ضروری طور پر جلتے دیکھا۔
’غیر منفصفانہ قوانین سے انکار کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر
لڑنے سے انکار کرنے والے فوجی اپنے خط پر زیادہ سے زیادہ دستخط حاصل کرنے کے لیے اس مہینے تل ابیب میں ایک اجتماع کر رہے ہیں۔ اس کے منتظمین میں میکس کریش بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریب کے لیے پوسٹر سائز کے اسٹکر تقسیم کیے ہیں، جس کی نمایاں بات اس پر درج مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا ایک اقتباس ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’ غیر منفصفانہ قوانین سے انکار کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے۔
لیکن فوج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جنگ سے انکار کی تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فوج کے مطابق اس جنگ میں اب تک 830 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
فوج میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی
چھاتہ بردار فوج کے 42 سالہ گیلاد سیگل سن 2023 کے آخر میں دو مہینے غزہ میں گزار چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی خدمت سے انکار کی تحریک چلانے والے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اسرائیل میں جنگ کے طول پکڑنے کے ساتھ اس پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ لیکن ملک کے اندر زیادہ تر تنقید یرغمالوں کو واپس گھر لانے کے لیے جنگ بندی پر مرکوز ہے۔
جب کہ بین الاقوامی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام لگا چکی ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کردہ کثیر ہلاکتوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے، اور وہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اسرائیلی حکومت کی فوج کے الزامات کی تردید
اسرائیل غیر معمولی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فوج کبھی بھی جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی اور فلسطینیوں کے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک بیان میں فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کے عندیے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے سپاہیوں کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔