نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) بھارتی وزیر دفاع نے اس موقع پر کہا کہ بحر اوقیانوس کی اہمیت اب بحر ہند کے خطے میں منتقل ہو گئی ہے، جو بین الاقوامی طاقت کے لیے رقابت کا مرکزبنتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ”بھارت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی بحریہ کو طاقت ور بنانے کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔”
آبدوز، ڈسٹرائر اور فریگیٹ کو ممبئی کے مزگاؤں ڈاک یارڈ میں تیار کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان تینوں کو کمیشن کیا۔ انہوں نے کہا، ”تینوں بڑے بحری جہازوں کی کمیشننگ اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیفنس مینوفیکچرنگ اور میری ٹائم سکیورٹی میں عالمی رہنما بننے کا بھارت کا وژن عملی جامہ پہننے لگا ہے، اور یہ اس سمت ایک لمبی چھلانگ ہے۔‘‘
بحر ہند میں بھارت کے بڑھتے دفاعی اقدامات
دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی کے مطابق بھارت کے اہم حریف چین کے بڑھتے ہوئے عزائم کی وجہ سے بحر ہند کے خطے کی صورت حال چیلنجنگ ہے۔
بیدی نے کہا کہ آئی این ایس واگشیر آبدوز، فرانسیسی لائسنس کے تحت تیار کلواری (اسکارپین) کلاس روایتی ڈیزل الیکٹرک آبدوزوں میں چھٹی آبدوز ہے۔ اس کا مقصد بھارت کے پرانے ہو چکے زیر آب پلیٹ فارمز کو تبدیل کرنا اور موجودہ صلاحیت کے سنگین خلا کو دور کرنا ہے۔ بھارت کے پاس اب مجموعی طور پر 16 آبدوزیں ہیں۔
بیدی نے کہا کہ پی پچھتراسکارپین آبدوز پروجیکٹ آبدوزوں کی تعمیر میں بھارت کی بڑھتی ہوئی مہارت کی نمائندگی کرتا ہے۔ بھارت یہ آبدوز فرانس کے نیول گروپ کے اشتراک سے تیار کر رہا ہے۔
توقع ہے کہ بھارتی وزارت دفاع وزیر اعظم مودی کے آئندہ دورہ فرانس کے دوران مزید تین اسکارپین آبدوزوں کی تیاری کے لیے ایک معاہدہ کرے گی۔ مودی ممکنہ طور پر اگلے ماہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ایکشن سمٹ میں شرکت کے لیے پیرس جائیں گے۔ اس سمٹ کی میزبانی فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کر رہے ہیں۔
تاہم بھارتی بحریہ کے مطابق ان آبدوزوں میں سے پہلی کی تیاری 2031 تک شروع ہونے کا امکان ہے۔
بھارت نے علاقائی حریف چین کے بہت زیادہ وسیع اور بڑھتے ہوئے بحری بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے 2022 میں اپنا پہلا ملک میں ہی تیار کردہ طیارہ بردار بحری جہاز کمیشن کیا تھا۔ اس کے بعد سے ملک میں جہاز سازی کی صلاحیتوں کو مزید وسعت دی گئی ہے۔
بھارت کا دوسرا آپریشنل طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت ہے۔ سنسکرت کے اس لفظ کے معنی طاقت ور یا دلیر کے ہیں۔ اسے سوویت یونین کے دور کے آئی این ایس وکرمادتیہ کے ساتھ شامل کیا گیا تھا، جسے بحر ہند اور خلیج بنگال کا دفاع کرنے کے لیے بھارت نے روس سے 2004 میں خریدا تھا۔