اسپین کشتی حادثے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکین وطن ہلاک، 36 کو بچا لیا گیا

میڈرڈ + ناوارا + اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز) تارکین وطن کے حقوق کیلئے سرگرم گروپ واکِنگ بارڈرز نے جمعرات کو بتایا کہ مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوب جانے کے نتیجے میں 50 تارکین وطن لقمہ اجل بن گئے ہیں جبکہ 36 کو بچا لیا گیا ہے۔

میڈرڈ اور ناوارا میں قائم گروپ واکنگ بارڈرز نے بتایا کہ یہ کشتی دو جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی اور راستے میں غرق ہو گئی۔ بتایا گیا ہے کہ مراکشی حکام نے بدھ کے روز حادثے کا شکار ہونے والی اس کشتی میں سوار 36 تارکین وطن کو بچا لیا ۔ بتایا گیا ہے کہ کشتی میں 86 تارکین وطن سوار تھے جن میں 66 پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے مغربی افریقہ سے سپین جانے والی غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں ’پاکستانیوں کی ہلاکت‘ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

جمعرات کی شب ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے بیان میں ’40 سے زیادہ پاکستانیوں کی ہلاکت‘ کا ذکر کیا گیا ہے تاہم وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ اُن کی جانب سے متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کی گئی ہے جبکہ ’انسانی سمگلنگ کے خلاف بھرپور اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں۔‘

اس حوالے سے سپین یا مراکش میں سرکاری حکام کی جانب سے فی الحال کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کشتی کو پیش آئے حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’رباط میں ہمارے سفارتخانے نے ہمیں آگاہ کیا گیا ہے کہ موریتانیہ سے پاکستانی شہریوں سمیت 80 مسافروں کو لے جانے والی ایک کشتی مراکش کے پورٹ داخلہ کے قریب ڈوب گئی ہے۔‘

تاہم پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانیوں سمیت حادثے میں بچ جانے والے متعدد افراد کو مراکش کے پورٹ داخلہ کے قریب ہی ایک کیمپ میں رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ’اس حادثے میں تقریباً 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں اکثریت پاکستانی شہریوں کی تھی۔‘

رائٹرز کے مطابق حادثے کا شکار کشتی میں 86 افراد سوار تھے، جن میں سے 36 افراد کو مراکش میں سرکاری اہلکاروں نے ریسکیو کر لیا ہے۔

تارکین وطنِ کے حقوق کیلئے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’واکنگ بارڈرز‘ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلینا ملینو نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان سے تھا۔

کینری جزائر کے علاقائی رہنما فرنینڈو کلاویجو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر واکنگ بارڈرز کی پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اس حادثے کے متاثرین کے ساتھ دُکھ کا اظہار کیا نیز اسپین اور یورپ سے زور دے کر مطالبہ کیا کہ وہ اس طرح کے سانحات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ ان کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا،” بحراوقیانوس افریقہ کا قبرستان نہیں بن سکتا۔‘‘ فرنینڈو کلاویجو نے مزید کہا،”وہ اس طرح کے انسانیت سوز سانحات کی طرف سے اپنی پیٹھ نہیں موڑ سکتے۔‘‘

اُدھر واکنگ بارڈرز کی سی ای او ہیلینا مالینو نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا،”ان میں سے 44 ڈوبنے والوں کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ”انہوں نے یہ کراسننگ عبور کرنے کے دوران 13 دن اذیت میں گزارے۔ کوئی بھی ان کو بچانے نہ آیا۔‘‘

2024 ء میں بذ‌ریعہ کشتی اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والوں کی کُل تعداد 10,457 تھی۔ یعنی یومیہ 30 افراد اسپین پہنچنے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

واکنگ بارڈرز کے مطابق ان میں سے زیادہ تر تارکین وطن بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران مغربی افریقی ممالک جیسے کے موریطانیہ اور سینیگال کے راستے کینری جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کے دوران لقمہ اجب بنے۔ اس گروپ نے مزید کہا کہ چھ روز قبل لاپتا ہونے والی کشتی کے بارے میں تمام متعلقہ ممالک کے حکام کو مطلع کر دیا گیا تھا۔

الارم فون نامی ایک اور این جی او جو سمندر میں گم ہونے والے تارکین وطن کے لیے ہنگامی فون لائن فراہم کرتی ہے، نے بتایا کہ اسپین کے سمندری حدود کو 12 جنوری کو الرٹ کر دیا گیا تھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں