اسلام آباد (بیورو رپورٹ)صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کے مختلف علاقوں میں چالیس سے زائد مسلح شدت پسندوں نے پاکستانی فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی)کےاہلکاروں کے گھروں میں گھس کر کمروں میں موجود سامان اور گھروں کو آگ کر نذرِ آتش کیا گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق میر زمان شیرانی، تاج اکبر، نور دین، اکبر زمان اور سید اکبر کے گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے۔
پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیکر شدت پسندوں کی تلاش کیلئے آپریشن شروع کر دیا ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ واقعہ کے وقت اہلکار اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر تھے جب کہ گھروں میں ان کی خواتین اور بچے رہائش پذیر تھے۔ واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم گھریلو سامان مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گیا۔
پولیس اور سیکورٹی فورسز نے موقع پر پہنچ کر واقعے کی تحقیقات شروع کر دیں۔
دوسری جانب اہل علاقہ اور متاثرہ خاندان نے اس واقعہ کی شدید مذمت، نقصان کے ازالے اور واقعہ میں پاکستانی طالبان کو جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک بیان میں پاکستانی فوج کے اقتصادی منصوبوں اور ان کے گھروں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔
ادھر لکی مروت سے اغوا ہونے والے اٹامک انرجی کمیشن کے مغوی اہلکاروں کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ مقامی سیاسی اور سماجی رہنماؤں پر مشتمل جرگے کے ذریعے بھی مغویوں کی بازیابی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مبینہ عسکریت پسندوں کے ساتھ رُکن صوبائی اسمبلی جوہر محمد خان کی سربراہی میں جرگے نے پیر کو مغویوں کی بازیابی کے لیے رابطے کیے ہیں۔
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ہفتے کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 16 ملازمین اور اُن کے لیجانے والے ڈرائیور کو وانڈہ کے علاقے سے اغوا کر لیا تھا۔ مسلح افراد نے ان افراد کو گاڑی سے اُتارنے کے بعد اسے آگ لگا دی تھی۔
ٹی ٹی پی نے اغوا کے چند گھنٹوں بعد آٹھ افراد کو رہا کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جن افراد کو چھوڑا گیا وہ مزدور تھے۔ تاہم سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ ان افراد کو آپریشن کے بعد بازیاب کرایا گیا اور اس دوران تین مغوی زخمی بھی ہوئے۔