کیا بھارت بحر ہند میں اثر و رسوخ کی چینی کوششوں کا مقابلہ کرسکتا ہے؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ بحر ہند کے خطے میں طاقت کی بین الاقوامی مسابقت میں اضافہ ہورہاہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اہم تجارتی راستے پر ایک مظبوط بحری موجودگی ان کے ملک کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔

اگرچہ سنگھ نے کسی ملک کا نام نہیں لیا ، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین ،جو 370 بحری جہازوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی بحری فورس کو کمانڈ کرتا ہے ، بھارت کےلیے 2020 میں ا س کے بعد سے سیکیورٹی کے حوالے سے باعث تشویش رہا ہے جب ان کی ہمالائی سرحد پر جھڑپوں میں اس کے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات تیزی سے کشیدہ ہو گئے۔

برطانیہ اور امریکہ کا بھی بحرہند کے ڈیگا گارشیا جزیرے پر ایک مشترکہ فوجی اڈہ ہے.

مذاکرات کے ایک سلسلے کے بعد اکتوبر میں ہونے والے ایک معاہدے کے بعدچینی اور بھارتی فوجی ایک دوسرے کے آمنے سامنے والے دو مقامات سے پیچھے ہٹ گئے لیکن بھارتی آرمی چیف نے اس ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تعطل کسی حد تک ابھی تک برقرار ہے ۔

ممبئی شہر میں بھارتی نیوی کے بیڑے میں دو جنگی جہازوں اور ایک آبدوز کی شمولیت کے دوران وزیر دفاع سنگھ نے کہا کہ،’’ دنیا کی تجارت اور کامرس کا ایک بڑا حصہ بحر ہند کے علاقے سے گزرتا ہے ۔ یہ خطہ جیو اسٹریٹیجک وجوہات کی بنا ء پر طاقت کی بین الاقوامی مسابقت کا ایک حصہ بن رہا ہے ۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حجم کے اعتبار سے بھارت کی 95 فیصد تجارت بحر ہند کے خطے سے منسلک ہے ۔ ایسی صورتحال میں ایک مضبوط بحریہ کی موجودگی ہماری سب سے بڑی ترجیح بن جاتی ہے ۔

ایسے میں کہ جب بیجنگ بھارت کے مضافات میں ، بنگلہ دیش، میانمار،سری لنکا اور پاکستان میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی پراجیکٹس کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھارہا ہے، بھارت چین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نئی دہلی 2035 تک 175 جہازوں پر مشتمل ایک مضبوط بحری فوج بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے جس میں مقامی طور پر تیار کردہ پرزوں کےاستعمال پرزیادہ زور دیا جائے گا۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تعمیر کی رفتار چین کے مقابلے میں سست ہے، جو ایک سال میں لگ بھگ 14 جنگی جہاز بناتا ہے، جب کہ بھارت صرف چار بناتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی نیوی میں جو تین وار شپ شامل کی گئی ہیں انہیں بحری جنگی جہاز بنانے والی بھارت کی سب سے بڑی کمپنی ’مزگاوں ڈوک شپ بلڈرز لمٹیڈ‘ ممبئی نے تیار کیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آئی این ایس سورت، آئی این ایس نیلگیری اور آئی این ایس واگشیر میں الگ الگ خصوصیات ہیں۔

جنگی جہازوں میں خاص کیا ہے؟

آئی این ایس سورت بھارت کا پہلا آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) سے چلنے والا جنگی جہاز ہے جو اپنی آپریشنل کارکردگی کو کئی گنا بڑھانے کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ اے آئی سولیوشنز کا استعمال کرے گا۔

یہ اسٹیلتھ گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر ہے جو جدید ترین تیکنیک سے لیس ہے۔ اس کی لمبائی 164 میٹر اور وزن تقریباً 7400 ٹن ہے۔ یہ سمندر میں 30 ناٹس (56) کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑ سکتا ہے۔

اسے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ یہ دشمنوں کے ریڈار سے چھپا رہتا ہے۔ یہ سطح سے سطح پر مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہے جہاں سطح سے ہوا میں مار کرنے والے دو ورٹیکل لانچر ہیں جن میں سے ہر ایک سے 16 میزائل داغے جا سکتے ہیں۔

اس میں جدید ترین سینسر اور مواصلاتی سہولتیں بھی ہیں۔ اس پر ایک وسیع پلیٹ فارم ہے جو جدید ترین آلات اور سینسر اور اینٹی شپ میزائل اور تارپیڈو سے لیس ہے۔

آئی این ایس نیلگیری اگلی جنریشن کا اسٹیلتھ فریگیٹ ہے۔ اسے بلیو واٹر آپریشن کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کی خصوصیات میں ریڈار سگنیچر کو کم کرنے کی تیکنیک شامل ہے۔ یہ روایتی اور غیر روایتی دونوں قسم کے خطرات سے نمٹ سکتا ہے۔

یہ اینٹی سرفیس، اینٹی ایئر اور اینٹی سب میرین لڑائی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس میں زمین سے زمین تک مار کرنے والا سوپر سونک میزائل سسٹم، درمیانی دوری کا زمین سے ہوا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم اور 76 ملی میٹر ترقی یافتہ گن اور ریپڈ فائیر کلوز ان ویپن سسٹم نصب ہے۔

اس کا وزن تقریباً 6670 ٹن ہے اور اس کی لمبائی 149 میٹر ہے۔

آئی این ایس واگشیر اسکارپین کلاس آبدوز ہے جو جدید ترین ہتھیار اور جنگی نظام سے لیس ہے۔ یہ سمندر میں خفیہ طور پر کام کرنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔

اس کی لمبائی 68 میٹر اور وزن تقریباً 1550 ٹن ہے۔ یہ آبدوز خفیہ طور پر کام کرنے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔

اس میں وائر گائیڈڈ تارپیڈو اور اینٹی شپ میزائل شامل ہیں جو اسے سطح کے اوپر اور زیر آب اہداف کو تباہ کرنے کی اہل بناتے ہیں۔ یہ دشمن کے جہاز کو نشانہ لینے اور اسے ڈبونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ فرانس کے نیوی گروپ کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ آبدوز دشمن کے ریڈار سے بچنے، علاقے کی نگرانی کرنے، خفیہ معلومات اکٹھی کرنے، کم شور کرنے اور ماحولیات کے اعتبار سے خود کو ڈھال لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اے آئی پی ٹیکنالوجی سے لیس

تجزیہ کار کے وی پرساد کے مطابق اس آبدوز کو بہت پہلے نیوی میں شامل کیا جانا تھا۔ لیکن اس کی تیاری میں تاخیر ہوئی۔ ان کے مطابق اس میں جدید ترین سونار سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے جو اس کی نگرانی کی اہلیت میں اضافہ کرتا ہے۔

ان کے مطابق پروجیکٹ 75 کے تحت بنائی جانے والی یہ چھٹی اور آخری آبدوز ہے۔ اس کے بعد مزید تین آبدوز بنانے کی تیاری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس میں ’ایئر انڈیپنڈنس پروپلشن‘ (اے آئی پی) ٹیکنالوجی لگانے کی سہولت ہے۔ اس میں اس ٹیکنالوجی کو نصب کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ابھی اس میں لگ نہیں پائی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اے آئی پی ٹیکنالوجی سے آبدوز زیادہ دیر تک زیر آب رہ سکتی ہے۔ ورنہ اسے 16 سے 24 گھنٹے کے اندر ایندھن لینے کے لیے سطح آب پر آنا پڑے گا۔ یہ ٹیکنالوجی ابھی تیاری کے مرحلے میں ہے۔

ان کے مطابق نیوی میں ان جنگی جہازوں اور آبدوز کی شمولیت سے کسی بھی علاقائی خطرے سے نمٹنے اور بحر ہند میں بھارت کی بحری صلاحیتوں میں اضافے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

خیال رہے کہ نیوی میں ان کی شمولیت کے موقع پر وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت بحر ہند خطے میں ردِعمل ظاہر کرنے والی پہلی طاقت کی حیثیت سے ابھرا ہے۔

تجزیہ کار کے مطابق انڈو پیسفک خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں سے عالمی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا اگر بھارت کے اس قدم کو عالمی تناظر اور بالخصوص بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل چار ملکی گروپ کواڈ کے تناظر میں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کی اسٹریٹجک اہمیت کا اندازہ ہو گا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں