یروشلم (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) حماس کی طرف سے تین اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے چند گھنٹے بعد 90 فلسطینی قیدیوں کو پیر کی صبح رہا کر دیا گیا ہے۔حماس کے مطابق ہر اسرائیلی یرغمالی کی رہائی کے بدلے 30 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا جائے گا۔
حماس کے مطابق پیر کو رہا کیے گئے نوے فلسطینی قیدیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے فلسطینیوں میں مغربی کنارے اور یروشلم کی 69 خواتین اور 21 نوعمر لڑکے شامل ہیں۔ رہا کیے گئے افراد میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی رہنما خالدہ جرار بھی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، آج رہا کیے گئے زیادہ تر افراد کو حال ہی میں حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا اور سزا بھی نہیں سنائی گئی تھی۔
فائر بندی کے پہلے مرحلے کے دوران، توقع ہے کہ اسرائیل تقریباً 1,900 فلسطینی قیدیوں اور نظربندوں کو رہا کرے گا، جب کہ حماس کے قریب 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کی توقع ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ ہر اسرائیلی یرغمالی کی رہائی کے بدلے 30 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا جائے گا۔
رہا کیے گئے افراد میں خالدہ جرار شامل
ایسوسی ایٹڈ پریس سمیت متعدد ذرائع ابلاغ کے مطابق، فلسطینی سیاست دان خالدہ جرار ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں رہا کیا گیا ہے۔
جرار پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی ایک سرکردہ رہنما ہیں۔ اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین نے اس گروپ کو “دہشت گرد تنظیم” قرار دیا ہے۔
جرار پچھلی دہائی کے بیشتر عرصے سے جیل کے اندر اور باہر رہی ہیں، اس سے قبل انہیں اشتعال انگیزی جیسے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔ خالدہ جرار کے اعزہ و اقارب نے انہیں خوش آمدید کہا۔
‘رہائی کا انتظار انتہائی مشکل تھا’
رہائی پانے والے فلسطینیوں نے بتایا کہ رہائی کا انتظار انتہائی مشکل تھا۔
رہائی پانے والی پہلی فلسطینی قیدیوں میں سے ایک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ آزادی کی طرف ان کا سفر اتوار کی سہ پہر تین بجے شروع ہوا، جہاں انہیں جیل سے لے جا کر اسرائیل-غزہ بیریئر کے قریب منتقل کر دیا گیا۔
فلسطینی صحافی، بشریٰ الطویل، نے کہا کہ انہیں دوسرے قیدیوں سے معلوم ہوا تھا کہ انہیں رہائی مل جائے گی۔ بشریٰ الطویل کو مارچ 2024 میں قید کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، “وکلاء نے انہیں بتایا کہ (فائر بندی) ڈیل کا اعلان کر دیا گیا ہے اور یہ عمل درآمد کے مرحلے میں ہے۔” لیکن یہ “انتظار بہت مشکل تھا۔ مگر اللہ کا شکر ہے، ہمیں یقین تھا کہ کسی بھی لمحے ہمیں رہا کر دیا جائے گا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “وہ اپنے والد کے بارے میں فکر مند رہتی ہے، جو اب بھی اسرائیلی جیل میں قید ہیں۔” حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں خبر ملی ہے کہ فائربندی کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر بعد میں ان کے والد کو بھی رہا کیا جائے گا۔
صحت کی ضروریات کو پورا کرنا ایک چیلنجنگ کام، ڈبلیو ایچ او
فائربندی کے معاہدے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی “بڑے پیمانے پر صحت کی ضروریات” کو پورا کرنا ایک “پیچیدہ اور چیلنجنگ کام” ہو گا۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا کہ “یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے عمل کا آغاز “ان لاکھوں لوگوں کے لیے بڑی امید افزاء ہے جن کی زندگیاں تنازعات کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ یہ وہ گھڑی ہے جس کا میں منتظر تھا اور جس کے لیے اپیلیں کی تھیں۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ “غزہ میں تباہی کی وسعت، آپریشنل پیچیدگی اور دیگر رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے، بڑے پیمانے پر صحت کی ضروریات کو پورا کرنا اور صحت کے نظام کی بحالی ایک پیچیدہ اور چیلنجنگ کام ہو گا۔”
دریں اثنا اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اتوار کو 630 سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔