اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) پاکستان میں توہین مذہب کے جعلی الزامات عائد کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ چند روز قبل اس معاملے پر اپنی برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کچھ دن پہلے حکومت پر اس وجہ سے برہمی کا اظہار کیا کہ وہ توہین مذہب کے جعلی مقدمات اور الزامات جیسے انتہائی سنگین معاملے پر ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے پر ابھی تک ناکام ہے، جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
گزشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو توہین مذہب کے جعلی مقدمات میں پھنسا کر بلیک میل کرنے کے معاملے پر عدالتی کارروائی شروع کی تھی۔ پٹیشنر کے وکیل عثمان وڑائچ نے کیس داخل کرتے ہوئے سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا تھا جس کے مطابق ایک ‘آرگنائزڈ گینگ‘ بلیک میل کرنے کے لیے نوجوانوں پرجعلی بنائی گئی شہادتوں کے ذریعے جھوٹے بلاسفیمی کے کیس بنا رہا ہے۔
ہائیکورٹ نے حکومت اور ایف آئی اے سے اس سلسے میں جواب طلب کیا تھا اور اس معاملے کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات کا کہا تھا۔ لیکن حکومت اور تحقیقاتی ایجنسی دونوں ہی عدالت میں کوئی تسلی بخش جواب داخل کرانے میں ناکام رہے۔
بلاسیفی کے جعلی کیسز کا کیا معاملہ ہے؟
تفصیلات کے مطابق، ملک بھر میں 400 سے زیادہ افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، ایک ایسے گروہ کے ہاتھوں جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنس چکے ہیں جو خود کو سماجی میڈیا پر گستاخانہ مواد کی نگرانی کرنے والا ایک خود ساختہ ‘نگران‘ گروہ ظاہر کرتا ہے۔
بعض متاثرین کے مطابق یہ گروپ لوگوں کو خود گرفتار بھی کرتا ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور بعد میں پیسے نہ ملنے کی صورت میں انہیں ایف آئی اے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
ڈی ڈبلیو نے اس معاملے پر ملکی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے میں کام کرنے والے بعض افسران سے بات کی۔ اس ایجنسی کے ایک ڈائریکٹر نے ناظ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ”یہ کام خود ساختہ نگرانی سے شروع ہوا، اور ابتدا میں شاید کچھ ایسے لوگوں کو رپورٹ کیا گیا ہو جنہوں نے ایسا مواد تو شیئر نہیں کیا کہ جس کی بنیاد پر سزائے موت دی جا سکے، لیکن کچھ قابل اعتراض مواد شیئر کیا ہو۔ لیکن وقت کے ساتھ مالی فائدے کا عنصر نظر آنے کے بعد اس گروہ نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور خود لوگوں کو پھنسانا شروع کر دیا ہے۔‘‘
سپیشل برانچ کی رپورٹ کیا ہے؟
جنوری 2024 میں اڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (سپیشل برانچ) کی سربراہی میں ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں ایسے گینگ کی موجودگی کا بتایا گیا جو لوگوں کو بلیک میل کر کے رقم بٹورنے کے لیے ان کو بلاسفیمی کے کیسز میں پھنسا رہا ہے اور ان کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، ”ایک منظم گروہ سوشل میڈیا پر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس کے ذریعے نوجوانوں کو پھنسانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ حساس اور متنازعہ مواد شیئر کرتا ہے اور ناتجربہ کار یا غیر محتاط نوجوانوں کو غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرنے پر اکساتا ہے۔ بعد میں ان تبصروں کو ذاتی طور پر حاصل کر کے محفوظ کیا جاتا ہے اورایف آئی کے بعض عناصر کی ملی بھگت سے ایف آئی اے میں مقدمات درج کرائے جاتے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ”یہ گروہ مذاکرات کے لیے ایک لڑکی کے ذریعے رابطہ کرتا ہے، اور عدم معاہدے کی صورت میں کیس کو آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ گروہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں گستاخی کے خلاف پمفلٹ تقسیم کرنے اور سیمینار منعقد کرنے میں بھی سرگرم ہے، اور لوگوں کو پھنسانے کے لیے منظم انداز میں کام کر رہا ہے۔‘‘
متاثرین کے ورثا کیا کہتے ہیں؟
ڈی ڈبلیو نے کم از کم چھ ایسے افراد کے ورثا سے بات کی جو اس گروہ کی کارروائیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ ان ورثا نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخوست کی اور کہا کہ معاشرے میں لوگ صرف الزام کو دیکھتے ہیں اور تحقیق پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔
ایسے ہی ایک مقدمے کا نشانہ بننے والے ایک نوجوان کے والد کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھنسایا گیا ہے اور اسے اغوا کرنے کے بعد اغوا کرنے والوں نے خود اس کے فون سے قابل اعتراض مواد شیئر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد ان سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا گیا جس کے ادا نہ کرنے پر ان کے بیٹے پر کیس بنا دیا گیا۔
جب کہ ایسے ہی ایک اور نوجوان کی والدہ کا کہنا تھا، ’’میرے پاس تو صرف تین لاکھ روپے تھے اور وہ میں نے انہیں دے دیے لیکن اتنے پیسوں میں وہ نہیں چھوڑتے۔ بس اتنی امید ہے کہ شاید اس پر تشدد میں کچھ کمی کر دیں۔‘‘
اسلام آباد کی ایک عدالت میں ایسے ہی ایک مقدمے کا سامنا کرنے والے ایک نوجوان کی والدہ کے مطابق، ”ہمارے بچوں کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں اور عدالتیں مانتی بھی ہیں لیکن ضمانت دینے سے گریزاں ہیں۔‘‘
وکلا کا کیا کہنا ہے؟
پھنسائے گئے لوگوں کے ایک وکیل ھادی علی چٹھہ کے مطابق عدالتوں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر شہادتیں جعلی ہو تی ہیں: ”اگر قانون کے مطابق پیش کی گئی شہادتوں کا ڈیجیٹل فرانزک کروایا جائے تو یہ آسانی سے ثابت ہو سکتا ہے، لیکن ایف آئی اے نے فرانزک نہیں کروایا اور یہ بات اب ہائیکورٹ اور اور دوسری کورٹس بھی مانتی ہیں لیکن بے گناہ لوگوں کو ضمانت دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔‘‘
ھادی علی نے یہ بھی بتایا کہ پانچ ایسے لوگ جن پر بلاسفیمی کے کیسز بنائے گئے تھے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان میں سے تین کی اموات اڈیالہ جیل میں اور دو کی لاہور جیل میں ہوئی ہیں اور اموات کی وجہ بے تحاشہ تشدد بنی۔
ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کا الزام ہی بہت خطرناک ہے،پاکستان میں لوگ تحقیق نہیں کرتے بس یقین کر لیا جاتا ہے اس لیے جیل میں قید نوجوان محفوظ تصور نہیں کیے جا سکتے۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے کا باقاعدہ مؤقف جاننے کے لیے متعدد مرتبہ سپوکس پرسن سے رابطہ کرنے کی کو شش کی گئی لیکن ان کی طرف نہ تو کسی کال کا جواب دیا گیا اور نہ ہی لکھے ہوئے میسجز کا کوئی جواب موصول ہوا۔