دی ہنگ (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) بین الاقوامی عدالت انصاف یا انٹر نیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر نے جمعرات کے روز کہا کہ وہ افغانستان میں خواتین پر ظلم و ستم کی وجہ سے طالبان کے سینئیر رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کی کوشش کر رہے ہیں۔ جوبقول انکے انسانیت کے منافی ایک جرم ہے۔
آئی سی سی کی استغاثہ ٹیم کے سر براہ کریم خان نےکہا کہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی پر، صنفی بنیادوں پر انسانیت کے خلاف ظلم وستم کے جرم کا زمہ دار ہونے کا شبہ کرنے کے لئے معقول جواز موجود ہیں۔
خان نے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ایل جی بی ٹی کیو (LGBTQ) کمیونٹی بھی طالبان کی جانب سے ایسے سخت مظالم کا مسلسل سامنا کر رہی ہے جن کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
(ایل جی بی ٹی کیو سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی شناخت اپنی پیدائشی جنس کی بجائے ہم جنس پرست یا ٹرانس جینڈر وغیرہ کے طور پر کراتے ہیں۔)
خان نےمزید کہا کہ’’ ہمارے اقدامات اس چیز کا اشارہ دیتے ہیں کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے موجودہ حیثیت قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
آئی سی سی کے جج اب یہ فیصلہ کرنے کیلئے پہلے خان کی درخواست پر غور کریں گے کہ آیا گرفتاری کا کوئی وارنٹ جاری کیا جائے یہ ایک ایسی کارروائی ہے جس میں ہفتوں یا مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔
دی ہیگ میں قائم یہ عدالت دنیا کے بدترین جرائم، مثلاً جنگی جرائم اور انسانیت کے منافی جرائم پر فیصلہ سنانے کے لیے تششکیل دی گئی تھی۔
انٹر نیشنل کرمنل کورٹ یا آئی سی سی کی اپنی کوئی پولیس فورس نہیں ہے اور وہ گرفتاری کے جاری کرد ہ اپنے وارنٹ پر عمل درآمد کے لیے اپنے 125 رکن ممالک پر انحصار کرتی ہے۔
اصولی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آئی سی سی کسی بھی شخص کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہے تو وہ حراست میں لیے جانے کے ڈر سے کسی رکن ملک کا سفر نہیں کر سکتا۔
کریم خان نے خبردار کیا کہ وہ جلد ہی طالبان کے دوسرے عہدیداروں کے لیے اضافی درخواستوں کی کوشش کریں گے۔
جنوبی افغانستان میں اپنے مضبوط مرکز میں الگ تھلگ رہنے والے اخوندزادہ نے مئی 2016 میں، اپنے پیش رو پاکستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت ہے چند روز بعد طالبان کی قیادت سنبھالی تھی۔
اخوندزادہ صوبہ قندھار سے، جہاں طالبان تحریک نے جنم لیا، حکم ناموں کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں اور اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک وہ صرف چند بار ہی عوام کے سامنے آئے ہیں۔
حقانی طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی ہیں اور انہوں نے 2020 میں امریکی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران طالبان کی جانب سے ایک مذاکرات کار کے طور پر کام کیا تھا۔
خان نے افغانستان میں انسانیت کے منافی دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم کی بھی نشاندہی کی۔
انہوں نے کہا، “طالبان کے خلاف سمجھی جانے والی مزاحمت یا مخالفت کو جرائم کے کمیشن کےذریعے قتل، قید، تشدد، ریپ اور جنسی تشدد کے دوسرے طریقوں، جبری گمشدگی اور دوسری غیر انسانی کارروائیوں سے وحشیانہ طور پر دبایا گیا، اور دبایا جاتا ہے۔”
ہیومن رائٹس واچ کا ردعمل
ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے کہا کہ پراسیکیوٹر کے اقدامات طالبان کی جانب سے عوامی زندگی سے خواتین اور لڑکیوں کے اخراج کو بین الاقوامی کمیونٹی کے ایجنڈے پر واپس لا سکیں گے۔
ہیومن رائٹس واچ کی بین الاقوامی انصاف کی ڈائریکٹر لِز ایونسن نے کہا ہے کہ، “طالبان کی اقتدار میں دوبارہ واپسی کے تین سال بعد، ان کی جانب سےخواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی منظم خلاف ورزیوں میں تیزی آئی ہے۔”
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کے بیان پر طالبان کی جانب سے کوئی رد عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔