امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل

واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/ڈی پی اے) وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن کے حوثی باغیوں کی تحریک کو دہشت گرد گروپ قرار دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے انہیں دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے باہر نکال دیا تھا۔

امریکہ کی نئی ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بار پھر سے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی گروپ کی تحریک کو ’’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دے دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس گروپ کو ’’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کا مقصد گروپ پر دوبارہ بہت سی سخت پابندیاں نافذ کرنا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے اس تعلق سے ایک بیان میں کہا، ’’حوثیوں کی سرگرمیاں مشرق وسطیٰ میں امریکی شہریوں اور اہلکاروں کی سلامتی، ہمارے قریبی علاقائی شراکت داروں کی حفاظت اور عالمی سمندری تجارت کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس امریکی پالیسی کے لیے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ ان کی ’’صلاحیتوں اور کارروائیوں کو ختم کیا جا سکے۔ انہیں وسائل سے محروم کر دیا جاسکے اور اس طرح امریکی اہلکاروں اور شہریوں، امریکی شراکت داروں نیز بحیرہ احمر میں سمندری جہاز رانی پر ان کے حملوں کو ختم کیا جا سکے۔‘‘

واضح رہے کہ ٹرمپ کے پیشرو صدر جو بائیڈن نے سن 2021 میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یمنی شہریوں تک امداد پہنچانے کے امکانات کے بارے میں خدشات کے اظہار کے بعد حوثی گروپ پر لگا دہشت گردی کا لیبل ہٹا دیا تھا۔

تاہم جب حوثی گروپ نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل اور بحیرہ احمر میں اس کے اتحادیوں پر حملے کیے تو، بائیڈن نے بھی یمن میں حوثی اہداف پر متعدد حملوں کا حکم دیا تھا۔

اس کا مقصد اس گروپ کے اسرائیل کے خلاف جاری حملوں کو روکنا اور بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کی اسرائیلی وزیر اعظم سے بات چیت

ٹرمپ انتظامیہ میں امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والے مارکو روبیو نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کی ہے اور اسرائیل کے لیے امریکہ کی ’’مستقل حمایت‘‘ کا وعدہ کیا۔

روبیو نے کہا،’’حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کامیابی‘‘ پر نیتن یاہو کو مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں اور غزہ میں عسکریت پسند گروپوں کے زیر حراست باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی میں مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

گزشتہ ہفتے اسرائیل اور حماس نے غزہ میں مرحلہ وار جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق کیا تھا، جس کے لیے امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی مہینوں تک بات چیت چلتی رہی۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ اسرائیل کی حمایت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ’’اولین ترجیح‘‘ ہے۔

اس کا مقصد اس گروپ کے اسرائیل کے خلاف جاری حملوں کو روکنا اور بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی کا دورہ غزہ

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کے لیے غزہ کی پٹی میں تعینات ’’بیرونی نگراں حکام‘‘ کی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

فوکس نیوز پر اسٹیو وِٹکوف نے اسرائیل کے دو تنگ راستوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’میں حقیقت میں اسرائیل جا رہا ہوں۔ میں نیٹسارم کوریڈور اور فیلاڈیلفیا راہداری پر ایک معائنہ کار ٹیم کا حصہ بننے جا رہا ہوں۔‘‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’اسی جگہ پر بیرونی معائنہ کار ہیں، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وہاں موجود ہیں کہ لوگ محفوظ رہیں اور جو لوگ داخل ہو رہے ہیں وہ مسلح نہ ہوں اور کسی کے دل میں کچھ بھی برا کرنے کا نہ ہو۔‘‘

وِٹکوف نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ معاہدے کو ابتدائی چھ ہفتے کے مرحلے سے اس کے دوسرے مرحلے تک لے جایا جائے۔ معاہدے کے بارے میں ثالثوں کا کہنا ہے کہ اس میں باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلاء شامل ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں