میڈیا سے متعلق پیکا ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور، صحافی تنظیموں کی مذمت

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں قومی اسمبلی نے سوشل میڈیا قوانین مزید سخت کرنے سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کثرتِ رائے سے منظور کر لیا ہے۔ اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے اس بل کی منظوری دی تھی۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی رُکن اسمبلی زرتاج گل نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ قومی اسمبلی میں بل پیش کیے جانے کے وقت بھی اپوزیشن ارکان موجود نہیں تھے۔

صحافیوں کی مختلف تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اس بل کو مسترد کردیا ہے ۔ بل پاس ہونے کے دوران صحافیوں نے قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔

مجوزہ ترامیم میں کہا گیا ہے کہ جھوٹی خبر پھیلانے پر تین سال تک قید اور 20لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

ترمیمی بل میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔

اتھارٹی کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونلز قائم کیے جائیں گے۔وفاقی حکومت تین سال کے لیے ٹربیونل ممبران تعینات کرے گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونلز 90روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔

جمعرات کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرِ صدارت اجلاس میں پاکستان الیکٹرانک کرائم ترمیمی بل 2025 منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ یہ بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا جسے ضمنی ایجنڈے کے طور پر ایوان میں لایا گیا۔بل پیش ہونے پر پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں نے احتجاج کیا اور پریس گیلری سے واک آؤٹ کرگئے۔

بعدازاں پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا جسے ارکان کی اکثریت سے ووٹ ملنے کے بعد ایوان سے منظور کرلیا گیا۔

قائمہ کمیٹی اجلاس میں بل پر بحث

اس سے قبل قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے سوشل میڈیا قوانین سخت کرنے کا پیکا ایکٹ ترمیمی بل پاس کر دیا۔ کمیٹی اجلاس میں پی ٹی آئی کی رکن زرتاج گل اجلاس سے واک آؤٹ کرگئیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ راجہ خرم نواز نے ارکان کو بتایا کہ آج کے ایجنڈے میں دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا ) میں مزید ترامیم کا بل شامل ہے۔

اس پر اپوزیشن کے رکن جمشید دستی نے کہا کہ ہنگامی اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک میں ‘کالے قانون’ لائے جا رہے ہیں، کشتی حادثے پر ڈی جی ایف آئی اے کو استعفی دینا چاہیے۔

زرتاج گل نے کہا کہ یک دم اجلاس بلالیا گیا ہے جب کہ سیشن ابھی جاری ہے، ‘کالے قوانین’ کے لیے اتنی جلد بازی کی جاتی ہے۔

سیکریٹری داخلہ کے اجلاس میں نہ آنے پر ارکان برہم ہوئے۔ چیئرمین نے کہا کہ فوری طور پر سیکریٹری داخلہ کو بلایا جائے۔

زرتاج گل کا کہنا تھا کہ “یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کو کسی کا اکاؤنٹ نہیں اچھا لگتا اس کی فیملی کو اُٹھا لیں۔” بعد ازاں کمیٹی نے بل پاس کردیا تاہم زرتاج گل کمیٹی اجلاس سے واک آؤٹ کرگئیں۔

قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کے بعد رانا تنویر حسین نے ضمنی ایجنڈے کے طور پر بل پیش کیا۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے ۔ کچھ دیر بعد بل کی منظوری دے دی گئی۔

اس دوران صحافیوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور پریس گیلری میں آگئے۔ اس موقع پر وزیراطلاعات و نشریات عطا تارڑ صحافیوں کو منانے کے لیے آئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس بل میں ابھی بھی مزید ترامیم ممکن ہیں اور حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اس بارے میں کام کرنا چاہتی ہے۔

نئے ترمیمی بل میں کیا ہے؟

مجوزہ ترمیم کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں‘ میں تجاویز دے گی ۔

یہ اتھارٹی تعلیم اور تحقیق سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی، اتھارٹی صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔

مجوزہ ترامیم میں ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کی نئی تعریف شامل کی گئی ہے اور سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر زکا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

پیکا ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک نئی شق کی تجویز شامل ہے۔ مجوزہ ترمیم میں قانون میں بیان کردہ اصطلاحات کی تعریف شامل ہے۔

مجوزہ ترمیم میں کی گئی تعریف میں ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

ڈی آر پی اے کے پاس سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار ہو گا، اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا محدود کرنے کی مجاز ہو گی۔

اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔

یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھ ممبران پر مشتمل ہو گی، وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین ارکان کا تقرر کرے گی۔ سیکریٹری اطلاعات، سیکریٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے ممبران ہوں گے۔

اتھارٹی میں تمام فیصلے اکثریتی ارکان کی رضامندی سے کیے جائیں گے، چیئرپرسن کو کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا خصوصی اختیار ہوگا۔ چیئرپرسن کے فیصلے کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں کے اندر ’توثیق‘ کرنا ہو گی۔

تجویز کردہ ترامیم کے مطابق اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے ’رجسٹرڈ‘ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔

اتھارٹی کے پاس حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک یا ہٹانے کا حکم دینے کا اختیار ہوگا۔

توہینِ عدالت، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی اور بلیک میلنگ سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

مسودے کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 60 روز کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام

ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔

ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام دفاتر اور مقدمات ایجنسی کو منتقل ہو جائیں گے۔

ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے اور بجٹ ایجنسی کو منتقل ہو جائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ممبران پر مشتمل ہو گی۔ پانچ ممبران کا تقرری وفاقی حکومت کرے گی۔

مجوزہ ترامیم کے مطابق قومی اسمبلی سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حذف مواد سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر کارروائی ہوگی۔ اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ کی طرف سے حذف مواد نشر کرنے پر تین سال قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکے گا۔

صحافیوں کا احتجاج

اس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری سے پہلے ہی صحافیوں کی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے بل کو مسترد کر دیا تھا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی ملک کی بڑی صحافتی تنظیموں پر مشتمل ہے۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم صحافی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر کی جا رہی ہیں۔ پیکا ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ اب تک شیئر نہیں کیا گیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں