ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، سرگئی شوئیگو

ماسکو (ڈیلی اردو/وی او اے/رائٹرز) روس کے سابق وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے جمعہ کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں ایٹمی طاقتوں کے درمیان مسلح تصادم کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔

سرگئی شوئیگو، صدر ولادیمیر پوٹن کی سکیورٹی کونسل کے سکریٹری ہیں اور ماضی میں روس کے وزیر دفاع بھی رہ چُکے ہیں۔

انہوں نے نیوز ایجنسی TASS کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ” دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے تنازعات اور جغرافیائی سیاسی دشمنی میں اضافے سے ریاستوں کے درمیان پرتشدد تصادم کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور اس تصادم کا جوہری طاقتیں بھی حصہ بن سکتی ہیں۔‘‘

نیٹو کا روس پر جوابی الزام

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے مذکورہ روسی الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ دراصل روس ہی کشیدگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اس تناظر میں نیٹو نے 2023 ء میں اُس روسی اقدام کا خاص طور سے ذکر کیا جس میں ماسکو نے اعلان کیا تھا کہ روس اپنے اتحادی ملک بیلاروس میں ”ٹیکٹیکل نیوکلئیر ہتھیار‘‘ تعینات کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ بیلاروس کی سرحد نیٹو کے تین رکن ممالک کی سرحدوں سے ملتی ہے۔

اُدھر روسی سکیورٹی کونسل کے سکریٹری اور سابق وزیر دفاع شوئیگو نے کہا کہ ان کا ملک جس نے فروری 2022ء میں ہزاروں فوجیوں پر مشتمل دستے یوکرین بھیجے تھے، اور روس اور اس کا تحادی بیلاروس خطے کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کی مغربی طاقتوں کی کوششوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کرنا چاہتے تھے۔

شوئیگو نے اس امر کا اعادہ کیا بیلا روس اب روس کے جوہری ہتھیاروں کے سائے میں محفوظ ہے۔ یہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے گذشتہ برس جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق روسی نظریے میں تبدیلی کے اعلان کے نتائج تھے۔

قریب ترین ممالک کیلئے تحفظ

روس کی جوہری طاقت دراصل اپنے قریبی اتحادیوں کو تحفظ کی یقین دہانی کراتی ہے۔ سابق وزیر دفاع شوئیگو کا کہنا تھا،”روسی نیوکلیئر امبریلا‘‘ اب اپنے اتحادیوں کو تحفظ کی یقینی دہانی کراتی ہے۔

جس تناظر میں روس اپنے دفاع کے لیے جوہری ردعمل کی اجازت دیتا ہے اسی میں روس اپنے قریبی اتحادیوں کو اپنی جوہری طاقت سے تحفظ فراہم کرنے کا یقین دلاتا ہے۔ شوئیگو کے بقول، ”حملے کو پسپا کرتے وقت بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بننے والے ہتھیاروں کا استعمال یا جارحیت کے لیے روایتی ہتھیاروں کا استعمال جو علاقائی خودمختاری یا سالمیت کے لیے ایک اہم خطرہ پیدا کرتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں۔‘‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں