پیرس (نمائندہ ڈیلی اردو/اے ایف پی) پیرس کی ایک عدالت نے جمعرات کے روز ایک پاکستانی شخص کو سن 2020 میں شارلی ایبدو کے سابق دفاتر کے باہر چاقو سے حملہ کرنے کے جرم میں مزکری ملزم ظہیر محمود کو 30 برس قید کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس کے تعلق سے پانچ دیگر پاکستانی مردوں کو، جس میں بعض اس وقت نابالغ تھے، کو بھی محمود کی مدد کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں 3 سے 12 سال کی قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
عدالت نے 29 سالہ ظہیر محمود کو ستمبر 2020 ء میں مذہبی انتہا پسندی کے تحت حملے میں قتل اور دہشت گردی کی کوشش کا مجرم پا یا، جس میں دو افراد زخمی ہوئے تھے۔
ظہیر محمود کا خیال تھا کہ وہ پیرس میں طنزیہ میگزین شارلی ایبدو کے ملازمین پر حملہ کر رہے ہیں اور انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ جنوری 2015 ء میں مسلم انتہا پسندوں کے حملے میں میگزین کے 12 عملے کو گولی مار کر ہلاک کیے جانے کے بعد، اس کا دفتر کسی دوسرے مقام پر منتقل ہو گیا تھا۔
واضح رہے کہ شارلی ایبدو میگزین نے پیغمبر اسلام کا مذاق اڑانے والے بعض متنازعہ کارٹون شائع کیے تھے، جس کے سبب میگزین کے عملے پر حملے ہوئے تھے۔
سن 2020 ء میں ظہیر محمود نے جو حملہ کیا، اس میں غلطی سے ایک مقامی نیوز ایجنسی کے دو ملازمین زحمی ہو ئے، جنہیں انہوں نے شارلی ایبدو کے ملازم سمجھ کر نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے حملے کے لیے قصائی والا چھرا استعمال کیا تھا۔
ان کے وکیل کے مطابق ایک پاکستانی شہری محمود، جو سن 2019 ء میں غیر قانونی طور پر فرانس میں داخل ہوئے تھے، کو ایک انتہا پسند مبلغ نے بنیاد پرست بنا دیا تھا۔ مذکورہ مبلغ کا اپنے پیروکاروں سے ”پیغمبر اسلام کی تضحیک کا انتقام لینے‘‘ پر زور تھا۔
وکیل کے مطابق محمود کے پاکستان چھوڑنے کے بعد فرانس میں خود کو انتہائی تنہا محسوس کرتے تھے اور اس قسم کے دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے بھی ان کی ذہنی کیفیت کا بھی ہاتھ تھا۔
محمود کے وکیل البیرک ڈی گیارڈن نے بدھ کے روز کہا، ”اس کے دماغ میں یہ تھا کہ اس نے پاکستان کبھی نہیں چھوڑا۔ وہ فرانسیسی نہیں بولتا ہے، وہ پاکستانیوں کے ساتھ رہتا ہے اور وہ پاکستانیوں کے لیے ہی کام کرتا ہے۔‘‘
اس کیس کے تعلق سے پانچ دیگر پاکستانی مردوں کو، جس میں بعض اس وقت نابالغ تھے، کو بھی محمود کی مدد کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں 3 سے 12 سال کی قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
مہینوں کی تفتیش کا نتیجہ
یوروپل کے یورپین انسداد دہشت گردی سینٹر نے فرانس اور سپین سمیت اٹلی میں اس آپریشن میں حصہ لیا۔ اٹلی میں جینوا کی پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ بین الاقوامی دہشت گردی کے الزامات پر ایک جج نے 14 گرفتاری کے وارنٹس پر دستخط کیے تھے۔
جینوا کے مقامی اخبار سیکولو کے مطابق ’اٹلی میں کم از کم آٹھ گرفتار ہونے والے افراد ایک اسلامی شدت پسند نیٹ ورک کا حصہ تھے جو حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔‘
اے ایف پی کے مطابق اس پورے معاملے کی تفتیش کا آغاز جینوا میں ہی ہوا تھا جہاں ایک ملزم رہائش پذیر تھا۔ جینوا کے مقامی اخبار سیکولو کے مطابق ’مہینوں تک ملزم کا پیچھا کیا گیا اور وائر ٹیپس کا استعمال کیا گیا جس کے دوران حاصل ہونے والا ڈیٹا دیگر ممالک کی پولیس کو بھی بھجوایا گیا۔ اس تفتیش کے نتیجے میں اٹلی کے دیگر علاقوں سمیت فرانس اور سپین میں بھی اسی گینگ کے دیگر ممبران کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔‘
اخبار کے مطابق 2020 میں گرفتار ہونے والے افراد سے تفتیش کا سلسلہ جاری تھااور اس بات کا تعین بھی کیا جا رہا تھا کہ آیا اس گینگ کے مذید ممبران ہیں یا نہیں۔
چارلی ایبڈو کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟
چارلی ایبڈو فرانس کا ایک ہفتہ وار جریدہ ہے جس میں طنزیہ انداز میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی جاتی ہے۔ کیتھولک، یہودیت اور اسلام کے بعض پہلوؤں کا تمسخر اڑانے کی وجہ سے یہ لمبے عرصے سے تنازعات کو ہوا دیتا رہا ہے۔
لیکن پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کے بعد سے اس کے صحافیوں اور عملے کو دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں اور سنہ 2011 میں اس پر پیٹرول بم بھی پھینکے گئے تھے۔
اس کے مدیر نے خاکوں کی اشاعت کا آزادی رائے کی ایک علامت کے طور پر دفاع کیا تھا۔ انھوں نے سنہ 2012 میں امریکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’وہ فرانس کے قوانین کے تحت رہتے ہیں نہ کہ قرآن کے قوانین کے تحت۔‘
اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں خاکوں کی اشاعات پر شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔
مسلمانوں کے عقائد کے مطابق پیغمبرِ اسلام کا کسی قسم کا عکس یا تصویر ممنوع ہے اور اس کو انتہائی قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔
سنہ 2015 میں کیا ہوا تھا؟
7 جنوری 2015 کو دو بھائیوں سعد اور شریف کواچی نے چارلی ایبڈو کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کر دی تھی جس میں اس اخبار کے ایڈیٹر سٹیفن شربونیئر، چار کارٹونسٹ، دو کالم نگار، ایک کاپی ایڈیٹر اور ایک مہمان جو اس وقت وہاں موجود تھا، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس ایڈیٹر کا محافظ اور ایک پولیس والا بھی فائرنگ کے دوران مارے گئے تھے۔
پولیس نے جب حملہ آوروں کی تلاش شروع کی جو کہ آخر کار مارے گئے، تو پیرس شہر کے مشرقی حصے میں ایک اور واقع پیش آیا۔ ایمدی کولابلی نے جو کواچی برادران کا ایک ساتھی تھا، ایک پولیس خاتون اہلکار کو ہلاک کر کے کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس نے نو جنوری کو یہودیوں کی ایک سپر مارکیٹ میں چار یہودیوں کو قتل کر دیا اور خود پولیس سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گیا۔
ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں احمدی نے کہا تھا کہ اس نے یہ حملہ دولت اسلامیہ کے نام پر کیا ہے۔
2020 میں حملہ
فرانس میں 2020 میں چارلی ہیبڈو نے ایک بار پھر متنازع خاکوں کو شائع کیا جس کے بعد ایک پاکستانی شہریت رکھنے والے نوجوان نے چارلی ہیبڈو کے سابق دفتر کے باہر چند افراد پر حملہ کیا۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ کرنے والے دو ملزمان کی سہولت کاری کے الزام میں 14 افراد پر مقدمہ چل رہا تھا۔ اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد چارلی ایبڈو کے دفتر کو ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
2020 میں مرکزی ملزم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن اس وقت فرانس کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ وہ پاکستان سے تین سال قبل ‘ایک تنہا لڑکے کے طور پر’ فرانس آئے تھے۔
خادم رضوی اور الیاس قادری سے متاثر
فرانس کے انسداد دہشت گردی کے پراسیکیوٹر ژوں فراں سوئے ریکاخ کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے قریبی جاننے والوں سے پتہ چلا ہے کہ وہ ناموسِ رسالت پر پاکستان کی تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے جلسوں اور تقاریر کی ویڈیوز دیکھ کر متاثر ہوا۔
فرانسیسی حکام کے مطابق ملزم نے حملے سے قبل پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا تھا۔ تین منٹ کی اس ویڈیو میں ملزم نے اردو میں بات کرتے ہوئےکہا تھا کہ وہ شارلی ایبدو میگزین کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر ‘مزاحمت‘ کرنے جا رہا ہے۔
اس ویڈیو میں ملزم نے اپنا یہ عمل ”تمام علمائے سنت اور بالخصوص اپنے پیر و مرشد الیاس قادری‘‘ کی نذر کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
پاکستان میں ناقدین کا الزام ہے کہ پچھلے چند برسوں میں ٹی ایل پی کو سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے بقول اس پارٹی کو ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
’میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا‘
چارلی ہیبڈو کی جانب سے 2020 میں گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستان میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جہاں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔
5 دیگر پاکستانی افراد، جن میں سے کچھ اس حملے کے وقت نابالغ تھے، ظہیر محمود کے ساتھ دہشت گردی کی سازش کے الزام میں مقدمے کا سامنا کر رہے تھے کہ انہوں نے ملزم کے اقدامات کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی تھی۔
فرانسیسی دارالحکومت کی نابالغوں کے لیے خصوصی عدالت نے ظہیر محمود کے شریک مدعا علیہان کو 3 سے 12 سال قید کی سزا سنائی۔
کٹہرے میں کھڑے 6 افراد میں سے کسی نے بھی فیصلے پر ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
سزا سنائے جانے کے موقع پر دونوں متاثرین موجود تھے، لیکن انہوں نے مقدمے کے نتائج پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اس سے قبل سماعت کے دوران دونوں متاثرین میں سے ایک نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس نے موت کے قریب پہنچنے کے تجربے کے بعد ’طویل بحالی‘ کا سامنا کیا۔ 37 سالہ متاثرہ شخص نے کہا کہ اس واقعے نے میرے اندر کچھ توڑ دیا تھا۔
دونوں متاثرہ فرانسیسی شہریوں نے ملزم کی جانب سے معافی کی درخواست قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ظہیر محمود کے وکلا نے اب تک عندیہ نہیں دیا ہے کہ آیا ان کے موکل فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے یا نہیں۔