پولیو وائرس افغانستان سے پاکستان میں کیسے پھیل رہا ہے؟

برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) سن 1955 میں پولیو وائرس کی پہلی ویکسین تیار ہونے سے پہلے تک، پولیو مائیلائٹس ہر سال 50 لاکھ افراد کو یا تو مفلوج کرنے یا پھر ان کی ہلاکت کا سبب بن رہا تھا۔

پھر سن 2000 تک اس سے حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیکوں کی مہم نے، جس میں نئی قسم کی پولیو ویکسین کا استعمال ہو رہا تھا، اس تیزی سے پھیلتے پولیو وائرس کو چند علاقوں کے علاوہ دنیا سے ختم کر دیا تھا۔

سن 2020 میں پورے افریقی خطے کو پولیو کے وائرس سے پاک قرار دیا گیا تھا۔ اس بیماری کا پھیلاؤ اب صرف دو ممالک میں ہو رہا ہے اور وہ ہیں افغانستان اور پاکستان۔

بڑے پیمانے پر پولیو کی خوراک اور ٹیکوں کے پروگراموں کے سبب سن 2023 میں پاکستان میں پولیو کا تقریبا خاتمہ ہو چکا تھا اور اس وائرس کے صرف چھ کیسز باقی رہ گئے تھے۔ لیکن اب یہ کیسز دوبارہ بڑھ رہے ہیں اور گزشتہ برس 73 کیسز رپورٹ ہوئے۔

کینیڈا کے ٹورنٹو میں بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کہتے ہیں، “اب یہ پاکستان کے تقریبا تمام اضلاع میں پھیل چکا ہے۔ ہم نے فتح کے جبڑوں سے شکست چھینی ہے۔”

بھٹہ نے طبی جریدے لانسیٹ میں اس پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیو وائرس کے کیسز افغانستان سے سرحد پار پھیل رہے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں وائلڈ پولیو وائرس کے جینیاتی تناؤ کا تعلق افغانستان سے ہے۔

پولیو وائرس افغانستان سے پاکستان میں کیوں پھیل رہا ہے؟

ذوالفقار بھٹہ تنازعات والے علاقوں میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی حکمت عملیوں پر کام کرنے والے گروپوں کی قیادت کرتے ہیں۔ وہ افغانستان میں پولیو ویکسین کی مہم کے سب سے بڑے ٹرائلز میں بھی شامل تھے اور ایک سال پہلے تک طالبان کے ساتھ “بہت کامیابی سے” کام کر رہے تھے۔

لیکن سن 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے کئی سالوں میں پولیو وائرس کے خاتمے کے پروگراموں کو متعدد دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صحت عامہ کے حکام کا کہنا ہے کہ “ویکسین سے ہچکچاہٹ” (جب لوگ ویکسین کت استعمال سے انکار کر دیتے ہیں)، حفظان صحت کی خراب صورتحال اور علاقائی عدم تحفظ نے ویکسینیشن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے۔

بھٹہ، جو دسمبر میں ہی افغانستان سے واپس آئے ہیں، کہتے ہیں کہ طالبان نے خواتین کو صحت اور طب کے پیشے میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہی ویکسینیشن سمیت عوامی پروگراموں میں رکاوٹ کی بڑی وجہ ہے۔

اب صحت کے حکام کے پاس افغانستان میں پولیو وائرس کے کیسز کی تعداد کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا بھی نہیں ہے۔ پولیو وائرس انتہائی صورتوں میں فالج کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر چھوٹے بچوں میں اور اگر یہ وائرس سانس لینے کے پٹھوں کو متاثر کرتا ہے تو مہلک بھی ہو سکتا ہے۔

بھٹہ نے کہا، “یہ ایک ایسا وائرس ہے جو ختم نہیں ہونا چاہتا، اس لیے اسے اگر ایک انچ ملے گا، تو یہ ایک گز لے لے گا۔”

بڑے پیمانے پر انسداد پولیو کے کامیاب پروگراموں کی ضرورت

پاکستان نے سن 2011 سے اب تک خطے میں پولیو وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام پر 10 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور افغانستان میں تنازعات سمیت دو دہائیوں کے چیلنجوں کے باوجود، اس پروگرام کے ذریعے پاکستان کی سرحدوں کے اندر پولیو کے مکمل خاتمے میں تقریباً کامیابی حاصل کی گئی ہے۔

لیکن پاکستان کے مختلف صوبوں میں حفاظتی ٹیکوں کی شرح مختلف ہے۔ پنجاب میں 85 فیصد بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں، جبکہ بلوچستان میں یہ شرح 30 فیصد تک کم ہے۔ جب تک تمام صوبوں میں ویکسین کی کوریج 85-90 فیصد تک نہیں پہنچ پاتی ہے خطے سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کا امکان نہیں ہے۔

بھٹہ نہ صرف پولیو بلکہ دیگر متعدی بیماریوں کے لیے بھی معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک بڑے اسٹریٹجک جائزہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، “اس طرح بھارت جیسے ممالک نے پولیو کا خاتمہ کیا اور انہوں نے میں اپنے معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کو بھی ساتھ ساتھ مضبوط کیا۔”

بھٹہ نے کہا، “یہ یقینی طور پر پاکستان میں بھی کام کر سکتا ہے۔ بس سوال یہ ہے کہ آپ وسائل کہاں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔”

پولیو کے خاتمے کیلئے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا ضروری

بھٹہ کا کہنا ہے کہ خطے میں پولیو وائرس کا خاتمہ اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کہ بین الاقوامی اور پاکستانی صحت کے حکام افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے۔ واضح ہے کہ فی الوقت ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

بین الاقوامی صحت کی ایجنسیوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے بعد امن کے دوران اس وقت چیچک کی ویکسین فراہم کرنے کے لیے کام کیا ہے، جب ہیلتھ ورکرز اندر جا کر ویکسین دے سکتے تھے۔

بھٹہ نے کہا، “طالبان دشمن نہیں ہیں۔ بالآخر، انہیں صحت کے وہی خدشات لاحق ہیں جو باقی سب کو لاحق ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ خطے میں پولیو کے خاتمے کے لیے جو چیز اہم ہے وہ صرف پولیو ہی نہیں بلکہ خواتین اور بچوں کے لیے صحت کے عمومی پروگراموں پر توجہ دینا ہے۔ ان کے مطابق مناسب صفائی ستھرائی اور بیماریوں سے بچاؤ کے وسیع تر پروگراموں کے بغیر، پولیو واپس آ جائے گا۔

ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران نمونیا، ڈینگی بخار اور خسرہ سمیت متعدد متعدی بیماریوں کے مشتبہ کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔

بھٹہ نے کہا، “اس خطے میں صحت کی بہت سی ضروریات ہیں، غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی ضروریات، بیماریوں سے بچاؤ اور انتظام کے ساتھ بچوں کی مختلف ضروریات۔ وہاں جا کر یہ کہنا کہ ہم صرف پولیو مہم ہی کرنا چاہتے ہیں، کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔”

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں