ریاض (ڈیلی اردو/ایس پی اے/سانا/ڈی پی اے) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی اتوار کو ریاض میں شام کے صدر احمد الشرع سے ملاقات ہوئی ہے۔ شامی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچے ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور شام کے صدر احمد الشرع کے درمیان ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں۔
ایس پی اے کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر احمد الشرع کو مبارک باد دی اور شامی عوام کی امیدوں کے حصول میں ان کی کامیابی کی خواہش کا اظہار کیا۔
ملاقات کے دوران شام کی حالیہ صورت حال، شام کی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے سپورٹ کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
شام کے صدر احمد الشرع اتوار کو اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر ریاض پہنچے جہاں ریاض کے نائب گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمن بن عبدالعزیز نے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر شامی صدر اور ان کے وفد کا استقبال کیا۔
شام کے سرکاری خبر رساں ادارے سانا کے مطابق صدر احمد الشرع کے ہمراہ وزیر خارجہ أسعد حسن الشیبانی بھی وفد میں شامل ہیں۔
سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق شام کے عبوری صدر احمد الشارع اپنے وزیر خارجہ اسد الشیبانی کے ہمراہ ریاض پہنچے جہاں سعودی حکام نے ان کا استقبال کیا۔
اسلامی انتہا پسند گروپ کی طرف سے سابق شامی صدر بشار الاسد کا گزشتہ دسمبر میں تختہ الٹنے کے بعد احمد الشارع کو ملک کا عبوری صدر نامزد کیا گیا تھا اور سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان ان کی سرکاری تقرری پر مبارکباد دینے والوں میں سب سے پہلے تھے۔
شامی حکام کی ملکی معیشت کی بحالی کی کوششیں
بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی نئی عبوری حکومت جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد کے لیے امیر خلیجی ممالک پر بھروسہ کر رہے ہیں۔
دسمبر کے آخر میں، احمد الشرع نے سعودی چینل العربیہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی مملکت شام کے مستقبل میں ”یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کرے گی۔‘‘ الشرع نے جنگ سے تباہ حال ملک شام میں سرمایہ کاری کے مواقع کوعظیم قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔
انہوں نے سعودی عرب کے العربیہ چینل کو بتایا کہ وہ سعودی عرب میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد کام کرتے تھے۔ الشرع نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سات سال سعودی عرب میں گزارے تھے۔
شام میں سعودی عرب کا کردار کتنا اہم؟
قاہرہ میں قائم ”الاحرام سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘‘ کی علاقائی ماہر ربحہ سیف عالم نے کہا کہ ریاض، ”نئے شام کو عرب دنیا اور بین الاقوامی سطح پر دوبارہ ضم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب کو شام کے استحکام سے براہ راست فائدہ پہنچے گا: ”ایران کو اب شام کے منظر نامے سے خارج کر دیا گیا ہے، اس کا علاقائی اثر و رسوخ کمزور ہو رہا ہے، اور شام سے خلیجی ممالک کو منشیات کی اسمگلنگ، جو عدم استحکام کا باعث تھی، اب ماضی کی بات ہو گئی ہے۔‘‘
علاقائی امور کی اس ماہر کا مزید کہنا تھا،”تہران سے دمشق کو دور کرنا ریاض کے لیے ایک اسٹریٹیجک سروس تھی۔‘‘
نصف سے زیادہ شامی بچے تعلیم سے محروم
اگرچہ سعودی عرب اور ایران نے 2023ء میں 7 سالہ سفارتی دوری کو ختم کر دیا، لیکن علاقائی سطح پر غیر معمولی اہمیت کے حامل ان دونوں ممالک نے متعدد جغرافیائی، سیاسی، بشمول شام کی خانہ جنگی سے متعلق مسائل میں مخالف فریقوں کی حمایت کی۔
شام دوسری جانب بین الاقوامی پابندیوں کے، جنہوں نے اس کی معیشت کو مزید تباہی کے دھانے پر ڈال دیا، ختم کروانے کے لیے بھی دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ پابندیاں سن 1979 سے چلی آ رہی ہیں، جب امریکہ نے شام کو ”دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست‘‘ قرار دیا تھا، لیکن پایندیوں کو واشنگٹن اور دیگر مغربی طاقتوں نے نمایاں طور پر اُس وقت بڑھایا جب اسد نے 2011 ء میں حکومت مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کیا جو ملک میں خانہ جنگی کی وجہ بنا۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ماہ دمشق کا دورہ کیا تھا اور پابندیوں کے خاتمے میں مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے دورے کے دوران کہا کہ ریاض ”تمام متعلقہ ممالک کے ساتھ مکالمت کے عمل میں سرگرم ہے، چاہے وہ امریکہ ہو یا یورپی یونین۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،”ہم مثبت پیغامات سن رہے ہیں۔‘‘
گزشتہ جمعرات کو، دمشق نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کا استقبال کیا۔ حمد الثانی نے”شام میں شامی معاشرے کے تمام شعبوں کی نمائندگی کرنے والی حکومت کے قیام کی فوری ضرورت پر زور دیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”شام میں استحکام، تعمیر نو، ترقی و خوشحالی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے معاشرے کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندہ حکومت کی تشکیل ضروری ہے۔‘‘