کراچی (ویب ڈیسک) کراچی کی مقامی عدالت نے دنیا نیوز کے سنیئر صحافی شاہ زیب جیلانی کی ایک لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے کے عوض قبل از گرفتاری عبوری ضمانت منظور کرلی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس میں ان پر پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف تبصرہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے نے یہ مقدمہ مولوی اقبال حیدر نامی وکیل کی مدعیت میں درج کیا ہے۔ جس میں انھوں نے موقف اپنایا ہے کہ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام ’آج کامران خان کے ساتھ‘ میں میزبان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے شاہ زیب جیلانی نے پاکستان کے ’مقدس‘ اداروں کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے ہیں۔
اور یہ تاثر دیا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ 18 مارچ 2019 کے پروگرام میں ایک حساس نوعیت کے سوال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سیاسی نظام میں مداخلت کا الزام لگایا گیا اور یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم عمران خان موجود نہیں رہیں گے۔
اگر وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ ان سے ناراض ہوجائے گی۔ ایف آئی اے کو 28 مارچ کو یہ درخواست موصول ہوئی تھی اور اس نے 6 اپریل کو یہ ایف آئی آر درج کی۔
شاہ زیب جیلانی سینئر صحافی ہیں، اس وقت وہ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام ’آج کامران خان کے ساتھ‘ کے سینئر پروڈیوسر ہیں۔ اس سے قبل وہ بی بی سی اردو کے ایڈیٹر اور ورلڈ سروس کے رپورٹر بھی رہے چکے ہیں۔
شاہ زیب جیلانی نے بی بی سی کے نمائندہ ریاض سہیل کو بتایا کہ سنہ 2017 میں انھوں نے ’آج کامران خان کے ساتھ‘ شو میں جبری گمشدگی پر ایک پروگرام کیا تھا۔
’ویسے تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ایک عرصے سے یہ گمشدگیاں ہو رہی ہیں لیکن اس کے بعد لاہور اور اسلام آباد سے بھی ہونے لگیں ہم نے کہا کہ یہ تو سارا معاملہ مین اسٹریم ہوگیا ہے۔ تو ہم نے اس کو صحافتی انداز میں کور کیا اور ہم نے کہا کہ اگر ریاست کو کسی کے ساتھ شکایت ہے تو آپ قانون کے دائرے میں رہ کر ان کے خلاف کارروائی کریں۔ انھیں یہ ناگوار گزرا کہ آپ نے اس ایشو پر ہی کیوں بات کی ہے۔‘
شاہ زیب جیلانی نے بی بی سی اردو کو مزید بتایا کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو پر ایک ڈاکیومینٹری کی تھی کہ ان کا جو دور اور کنٹری بیوشن ہے ہم نے اس بھلا دیا۔ وہ جنرل ضیاالحق کے وقت کے کٹھ پتلی وزیر اعظم تھے لیکن اس کے باوجود بھی ملک کو جمہوری ڈگر پر لانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔
’ڈاکیومینٹری کے آخر میں میزبان نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے لیے کیا سبق ہے میں نے کہا کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ سوچ تو قائم رہی ہے، ہم نے اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔‘
شاہ زیب جیلانی کے مطابق ’یہ اس قسم کا عام سا تبصرہ تھا جس سے پاکستان کی اکثریت اتفاق کرے گی اور اس میں کسی پر تہمت نہیں لگائی گئی اس میں ہم نے حقائق کو بیان کیا تو انھوں نے الزام لگایا کہ آپ نے اس میں اشارہ ہماری جانب کیا ہے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کیا ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملکی سیاست چلاتے ہیں۔‘
’میرا خیال ہے کہ اس گھٹن کے ماحول میں بھی ان معاملات پر تو بات ہوتی ہے ہمارے سیاست دان کرتے ہیں اور ہمارے تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ ہم تو سیاسی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں ان کی کرپشن پر بھی ہم بات کر رہے ہوتے ہیں اس لیے ہماری کس ادارے یا کسی جماعت سے نہ کوئی لگاؤ ہے نہ کوئی بغض ہے۔‘
کراچی کی مقامی عدالت میں آئندہ پیر کو اس مقدمے کی سماعت ہوگی، شاہ زیب جیلانی کا کہنا ہے کہ اس بات کی خوش ہے کہ انھوں نے قانونی راستہ اختیار کیا تاہم اس میں ہراسمنٹ کا ایک پہلو شامل ہے۔ ماضی میں ہمارے صحافیوں نے تشدد برداشت کیا ہے جانیں گنوائی ہیں جس سے ریاست کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے کہ اس کو اب دوسرے انداز سے نمٹا جائے۔
’میرا خیال ہے کہ جس وقت یہ سائبر قانون بن رہے تھے اس وقت ہمارا ملک انتخابی عمل اور سیاسی دھما چوکڑی میں مصروف تھا اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی اب نظر یہ آرہا ہے کہ اس میں کچھ شقیں ایسی ڈالی گئی ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے یہ کسی بھی ورکنگ جرنلسٹ کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں اس کی زبان بندی کرسکتے۔‘