کرک (ڈیلی اردو) کرک یونیورسٹی کے طلبا کی جانب سے مقامی طور پر تیار کردہ فضائی آلودگی کو جانچنے والا پہلا آلہ مکمل طور پر فعال ہوگیا۔ یہ آلہ کرک یونیورسٹی کے طالب علموں کی جانب سے تیار کیا گیا ہے اور اسے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر پہلے مرحلے میں ضلعی سیکریٹریٹ میں لگایا گیا ہے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ یہ آلہ مکمل طور پر فعال ہوگیا ہے اور یہ فضا میں کاربن مونو آکسائڈ، کاربن ڈائی آکسائڈ اور امونیا کی شرح کو مانیٹر کرسکے گا۔
کرک یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس اور بائیو انفارمیٹکس کے چوتھے سیمیسٹر کے طالب علم صفدر فہیم نے میڈیا کو بتایا کہ پائلٹ پروجیکٹ میں ان کی ڈیوائس کو ایئر پام کا نام دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ایئر پام گیجٹ کے نتیجے میں حکومت کو فضائی آلودگی کم کرنے کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں’۔
صفدر فہیم نے مزید بتایا کہ ایئر پام کیجٹ نہ صرف فضا میں گیسز کا تناسب بلکہ فضا میں دھول کے ذرات کو الگ کرنے کے لیے 2 طرح کے حجم 2.5 اور 10 مائیکرون کو ٹھیک کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گیجٹ کی رینج 2 سے 3 اسکوائر کلومیٹر ہے اور مشین میں مائکرو کنٹرولر موجود ہیں جو ایک پراسیسر کی طرح کام کرتے ہیں جبکہ اس میں موجود سینسر بہت حساس ہیں جو گیسز کو محسوس کرلیتے ہیں۔
طالب علم نے کہا کہ یہ پروجیکٹ کرک یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس اینڈ بائیو انفارمیٹکس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد زبیر کی جانب سے دیا گیا تھا، جسے 2 ماہ میں مکمل کیا گیا اور اس پر 15 سے 20 ہزار روپے کا خرچ آیا۔
دوسری جانب ضلعی سیکریٹریٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آئی ٹی ہلال خان نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ‘ایئر پام گیجٹ ڈیٹا ہر 30 منٹ بعد ڈیٹا حاصل کرکے جی ایس ایم کے ذریعے اسے ڈائریکٹریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بھیجتا ہے’۔
واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 2016 میں کیے گئے سروے کے مطابق پشاور دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر تھا۔ ادھر پشاور کے میئر محمد عاصم کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کے پاس اس خاص اہمیت کے حامل معاملے پر قابو پانے کا کوئی صحیح میکانزم نہیں ہے، تاہم اس طرح کی ایجاد کے بعد ہمیں امید ہے کہ فضا کو صحت کے لیے دوبارہ محفوظ بنائیں گے۔
میئر پشاور کا کہنا تھا کہ اب ہم ایئر پام گیجٹ کے ذریعے ڈیٹا حاصل کر ہے ہیں اور شہریوں کے لیے جامع منصوبہ بندی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس آلے سے باچا خان چوک، فردوس اور ہشتناگری بازار اور جی ٹی روڈ سے ملحقہ گنجان آباد علاقوں میں آلودگی کا پتہ چلانے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کامیاب تجربے کے بعد حکومت کا اسے شہر کے دوسرے علاقوں میں بھی بڑھانے کا منصوبہ ہے۔
علاوہ ازیں پرجیکٹ گروپ کے ساتھ ساجد اسلام کا کہنا تھا کہ خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک کے شعبہ طبیعات کے ساتھ کام کرکے یونیورسٹی میں سینسر بنائے تاکہ ہم ڈیوائس کو اوزون نائٹروجن ڈائی آکسائڈ و دیگر گیس کے ساتھ بہتر بنا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بہت نیچے سے کام کا آغاز کیا اور ہماری مشین کے لیے مناسب پرزے تلاش کیے اور بالاخر خوشحال خان خٹک یونیوسٹی اور ڈائریکٹریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس مشین کو مختلف علاقوں میں نصب کرسکے۔