کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبے بلوچستان میں درۂ بولان کے قریب کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کے واقعے کو سیکیورٹی ماہرین بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی نئی، منظم اور جارحانہ حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں۔
کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ایک اہم دھڑے نے منگل کی دوپہر مسافر ٹرین پر حملہ کر کے اسے ایک سرنگ کے قریب روک کر 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
یہ ٹرین کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی جسے پنجاب کے اہم شہروں لاہور اور راولپنڈی سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچنا تھا۔
البتہ ٹرین کو عسکریت پسندوں کی جانب سے روکے جانے کے 24 گھنٹوں بعد بدھ کی دوپہر تک سیکیورٹی ادارے تمام یرغمال افراد کو بازیاب نہیں کروا سکے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اب تک 155 مسافروں کو بازیاب کرایا جا چکا ہے جب کہ دیگر کی بازیابی کے لیے آپریشن جاری ہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے جھڑپوں کے دوران 27 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ بشیر زیب کی قیادت میں فعال ‘بی ایل اے’ کے دھڑے نے کیا ہے۔ ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ٹرین میں سوار اُن مسافروں کو نشانہ بنایا ہے جو مختلف سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ تھے۔
بی ایل اے نے پاکستانی حکام کو 48 گھنٹوں کی مہلت دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یرغمال افراد کی رہائی کے بدلے بلوچ سیاسی قیدیوں، جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد اور مزاحمتی کارکنان کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
خیال رہے کہ درۂ بولان کے علاقے میں آزاد ذرائع سے معلومات تک رسائی محدود ہونے کے سبب اس واقعے سے متعلق خبریں زیادہ تر سیکیورٹی حکام یا بی ایل اے کی جاری کردہ اطلاعات پر مبنی ہیں۔ ایسے میں اس واقعے کی مکمل اور غیر جانب دارانہ تصدیق ایک بڑا چیلنج ہے۔
علیحدگی پسند تنظیموں کی ‘نئی اور جارحانہ’ حکمتِ عملی
سیکیورٹی ماہرین کا کہناہے کہ ٹرین پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا یہ واقعہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور عسکری حکمتِ عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
سنگاپور میں قائم ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر ریسرچ فیلو عبدالباسط کہتے ہیں کہ بی ایل اے کا مسافر ٹرین پر حملہ دراصل بلوچستان میں جاری شورش کے نئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے جو ان عسکریت پسند تنظیموں کے ارتقائی عمل اور ان کی بدلتی حکمتِ عملی کو واضح کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالباسط نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ عرصے کے دوران چھوٹے پیمانے سے بڑے پیمانے پر حملے دیکھنے کو ملے ہیں۔
ان کے بقول ان حملوں میں شہری گوریلا جنگ کی جھلک بھی زیادہ نمایاں ہو رہی ہے جو پہلے زیادہ تر دیہی علاقوں تک محدود تھی۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند اب دور دراز پہاڑی علاقوں سے نکل کر بلوچستان کی مرکزی شاہراہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اب وہ ٹرین پر قبضہ کرنے جیسے پیچیدہ حملے بھی کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی ایک بلوچ عسکریت پسند گروہ نے بلوچستان کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی شاہراہ پر مسافر بسوں کو روک کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مسافروں کو شناخت کر کے قتل کر دیا تھا۔
اس سے قبل بلوچستان کے منگوچر اور زہری کے علاقوں میں مسلح افراد نے شہریوں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بنا لیا تھا۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی اہلکار کا کہناہے کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے حملوں کی شدت اورنوعیت میں تبدیلی لاتی رہی ہیں۔
ذرائع ابلاغ سے بات چیت پر ممانعت کے سبب نام نہ شائع کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ بلوچ عسکری تنظیمیں پہلے ٹرین کی پٹریوں یا موبائل ٹاورز کو دھماکے سے اڑانے جیسے حملوں تک محدود تھیں لیکن اب ان کے حملے زیادہ منظم اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بی ایل اے کے حملوں میں خودکش یا فدائین حملوں کا بھی استعمال تیزی سے بڑھ رہاہے جن میں خواتین کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے حالیہ واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ٹرین پر قبضے اور کئی کئی گھنٹوں تک قصبوں اور سڑکوں کو کنٹرول میں رکھنے کے واقعات کا مقصد دراصل ریاست کے ردِعمل کا اندازہ لگانے کی کوشش ہے۔
براس کی “مربوط، منظم” حملوں کی دھمکی
جعفر ایکسپریس پر حملے سے لگ بھگ 10 روز قبل بلوچ راجی آ جوئی سنگر (براس) نامی علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد نےریاستی اداروں اور چینی مفادات کے خلاف اپنے حملوں میں شدت لانے کا اعلان کیا تھا۔
بلوچستان میں فعال مسلح عسکریت پسندوں تنظیموں نے جولائی 2020 میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ چین کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے ‘براس’ نامی اتحاد قائم کیا تھا۔
اس اتحاد میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام عرف شنبے کی بلوچ ری پبلکن آرمی (جو بعد میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی بنی) اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔
بعد ازاں سندھ کی ایک مسلح تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے بھی اس اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
رواں برس دو مارچ نے اپنے ایک اعلامیے میں اتحاد میں شامل تنظیموں کے ایک اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر تنظیم کی انفرادی اور منتشر کارروائیوں کو مربوط اور منظم انداز میں یکجا کر کے مشترکہ حملے کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی، تاکہ زیادہ مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
خیال رہے کہ اس اعلامیے میں گلزار امام کی ‘بی این اے’ کا نام براس کی اتحادی تنظیموں میں شامل نہیں تھا۔ گلزار امام کو کچھ عرصہ قبل ترکیہ سے مبینہ طور پر گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی گرفتاری کے بعد ان کے نائب کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے بھی ہتھیار ڈال دیے تھے۔
ماہرین کا کہناہے کہ یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں کے اتحاد اور تنظیمی ڈھانچے میں اندرونی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو شورش کی مجموعی سمت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
بلوچ عسکریت پسندوں کا ممکنہ انضمام
حال ہی میں ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ ‘براس’ میں شامل عسکریت پسند تنظیمیں ایک کامیاب عسکری اتحاد کے بعد ممکنہ طور پر مکمل انضمام کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ انضمام عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ بلوچستان میں جاری شورش کے لیے ایک بڑی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ اس سے بلوچ عسکریت پسندوں کو ایک زیادہ منظم اور ہم آہنگ عسکری پلیٹ فارم حاصل ہو جائے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بلوچ عسکری گروہوں کے ممکنہ انضمام کا تصور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حکمتِ عملی سے متاثر ہو سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں مفتی نور ولی محسود کی قیادت میں ٹی ٹی پی نےمتعدد ناراض اور آزاد گروہوں کو اپنے ساتھ شامل کیا جب کہ القاعدہ برِصغیر اور لشکرِ جھنگوی سمیت کئی دیگر تنظیموں کو بھی ضم کر کے اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔
بلوچستان کے عسکری اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچ مزاحمتی تحریک کی تاریخ باہمی اختلافات اور قیادت کے تنازعات سے بھری ہوئی ہے جو کسی بھی مکمل انضمام کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
تاہم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اندرونی معاملات سے باخبر مکران کے ایک سینئر سیاسی رہنما کا کہنا ہے کہ بلوچ مزاحمتی گروہوں، طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں قیادت کے مسئلے کی وجہ سے ہمیشہ ٹوٹ پھوٹ کا خدشہ رہتا ہے اور اسی پس منظر میں ان عسکریت پسند گروہوں کا مکمل انضمام آسان نہیں ہوگا۔
مکران سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “بلوچ عسکری گروہوں، طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں قیادت کا مسئلہ ہمیشہ سے اختلافات اور دھڑے بندی کی بڑی وجہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کئی اتحاد قائم ہوئے، لیکن زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکے۔”
ان کے مطابق بی ایل اے کا بشیر زیب گروپ قیادت کے اختلافات کی وجہ سے حربیار مری کے بی ایل اے سے علیحدہ ہوا تھا اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں دھڑے ‘براس’ میں ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔
ان کے بقول “اسی طرح، گلزار امام اور سرفراز بنگلزئی نے بھی برہمداغ بگٹی اور مہران مری کے گروہوں سے علیحدہ ہو کر اپنے عسکری دھڑے تشکیل دیے تھے۔”
حکومتی رٹ
بلوچستان کی موجودہ مخدوش سیاسی اورسیکیورٹی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں بلوچ شورش مزید شدت اختیار کرسکتی ہے جس کا انحصارحکومتی پالیسیوں پر ہے۔
عبدالباسط کا کہناہے کہ “بولان میں ٹرین واقعہ اور اس سے قبل رونما ہونے والے بڑھے واقعات ایک جانب عسکریت پسندتنظیموں کی بڑھتی ہوئی آپریشنل صلاحیتوں کی نشان دہی کرتے ہیں تو وہیں اس سے صوبے میں حکومت کی کمزورہوتی ہوئی گرفت بھی ظاہر ہوتی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو ان مشکل سوالات کے جوابات دینے ہوں گے جو منگل کے حملوں کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
رواں ہفتے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے خضدار سے رکن صوبائی اسمبلی میر ظفر زہری نے بھی بلوچستان حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں سرفراز بگٹی کی نہیں بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب اور ‘بی ایل ایف’ کے ڈاکٹر اللہ نذر کی رٹ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ” عسکریت پسند تنظیموں کے لوگ راتوں کو گشت پر نکلتے ہیں جب کہ سڑکوں پر ناکہ بندی کرتے ہیں اور حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔”
بدھ کو وزیراعلٰی میر سرفراز بگٹی کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس حملے کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کو ایک انچ زمین پر بھی قابض نہیں ہونے دیا جائے گا اور ہر قیمت پر صوبے میں امن قائم رکھا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا مقصد صوبے میں خوف و ہراس اور عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔لیکن حکومت اور سیکیورٹی ادارے دشمن عناصر کے عزائم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔