شام: تشدد میں 1383 ہلاکتیں، جھڑپوں کا سبب کیا ہے؟

دمشق (ڈیلی اردو) گزشتہ چار روز سے شام میں جاری تشدد کی لہر میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ اے ایف پی کی رپورٹ میں ہلاکتوں کی تعداد 1383 بتائی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ تشدد کا آغاز ملک سے فرار ہونے والے سابق صدر بشار الاسد کے مسلح وفاداروں کی جانب سے شام کے ایک سیکیورٹی گشتی دستے پر گھات لگا کیے گئے حملے سے ہوا۔

جمعرات کو یہ حملہ بندرگاہی شہر لاطاقیہ میں ہوا جس نے ملک میں 13 سالہ خانه جنگی کے زخم تازہ کر دیے اور دسمبر کے بعد سے ، جب اسلام پسند گروپ ہیت تحریر الشام نے بشار الاسد کا تختہ الٹا تھا، بدترین تشدد دیکھنے میں آیا ہے۔

اس ساحلی علاقے میں علوی فرقے کی اکثریت ہے جنہیں بشار الاسد کا وفادار سمجھا جاتا ہے۔ ان کے خلاف جوابی کاروائیوں کا دائرہ کئی شہریوں اور قصبوں تک پھیل گیا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ انتقامی کارروائیوں میں شیعہ اقلیتی فرقے کے لوگوں کو یہ جانے بغیر ہلاک کیا گیا کہ وہ شورش میں ملوث تھے یا نہیں۔

تشدد کیسے شروع ہوا؟

صدر اسد کے زوال کے بعد شام میں علویوں کے خلاف فرقہ وارانہ حملوں کے تناؤ میں اضافہ ہوا۔ اسد کے خاندان نے ملک پر 50 سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تھی۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے عبوری صدرالشرع کے ان وعدوں کے باوجود تشدد کے واقعات جاری رہے کہ ملک میں ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جائے گا جس میں تمام کمیونیٹیز کی نمائندگی ہو گی۔

علوی شام کی آبادی کا تقریباً 12 فی صد ہیں اور مذہبی اعتبار سے وہ شیعہ مسلک کے قریب ہیں۔ سابق حکمران خاندان اسد کا تعلق بھی اسی فرقے سے ہے۔

دوسری جانب نئے سنی حکمرانوں کا الزام ہے کہ ساحلی علاقوں میں سابق صدر کے حامی نیم فوجی جتھے سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں اور ان کا جواب دیا جا رہا ہے۔

تشدد میں شدت اس وقت آئی جب اسد نواز علوی مسلح افراد نے سیکیورٹی فورسز پر گھات لگا کر حملے شروع کیے اور بشار الاسد کے آبائی شہر قردہ پر قبضہ کر لیا جس کے بعد دمشق نے علاقے میں اپنی فوجی طاقت بڑھا دی۔

شام کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل حسن عبدالغنی نے اتوار کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں اپنا کنٹرول بحال کر لیا ہے اور وہ شورش پسندوں کا تعاقب کر رہی ہیں۔

حکام کی جانب سے فرقہ واریت سے بچنے کی اپیلوں کے باوجود جھڑپوں نے مہلک صورت اختیار کر لی اور بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے۔

ہلاک ہونے والے کون ہیں؟

بظاہر ہلاک ہونے والوں میں اکثریت علوی کمیونیٹی کے ارکان کی ہے جو زیادہ تر ساحلی صوبے میں آباد ہے، جن میں لاطاقیہ اور طرطوس کے شہر بھی شامل ہیں۔

علوی کیوں نشانہ بن رہے ہیں؟

شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک گروپ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 745 عام شہری ہیں، جن میں اکثر گولیوں کا نشانہ بنے ۔ سیکیورٹی فورسز کے 125 ارکان ہلاک ہوئے جب کہ مارے جانے والوں میں 148 ایسےمسلح افراد تھے جو سابق صدر اسد سے وابستہ تھے۔

گروپ نے مزید بتایا ہے کہ لاطاقیہ کے زیادہ تر حصے میں بجلی اور پانی کی فراہمی روک دی گئی ہے۔

کیا دمشق جھڑپوں کے بعد امن و امان بحال کر سکتا ہے؟

دمشق اپنی اسلامی حکومت کے گروپوں اور شمال مشرق اور جنوب میں کرد قیادت کے حکام کے ساتھ مصالحت کی کوشش کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عبوری صدر الشرع امریکہ اور یورپ کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان پر سے پابندیاں اٹھا لی جائیں تاکہ لاکھوں شامی باشندوں کو غربت سے نکالنے کے لیے معیشت کو بحال کیا جا سکے۔جب کہ امریکہ اور یورپ کو خدشہ ہے کہ شام میں ایسی حکومت قائم ہوئے بغیر جس میں تمام کمیونیٹیز کی نمائندگی ہو، پابندیاں اٹھانے سے آمرانہ اقتدار کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔


اس رپورٹ کی تفصیلات وی او اے/اے پی/اے ایف پی سے لی گئیں ہیں

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں