کوئٹہ + اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/ڈی پی اے) کوئٹہ سے موصولہ خبر رساں ایجنسی اے پی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے 24 گھنٹے تک جاری رہنے والے ریسکیو آپریشن کے بعد بلوچ علیحدگی پسند باغیوں کی طرف سے ہائی جیک کی گئی ٹرین جعفر ایکسپریس پر ان کا قبضہ ختم ہو گیا ہے۔ حکام نے کہا ہے کہ سینکڑوں افراد کو لے جانے والی اس ٹرین پر باغیوں کا قبضہ ختم کرانے کے لیے 24 گھنٹے تک جاری آپریشن میں تمام حملہ آور مارے گئے جبکہ یرغمال بنائے گئے مسافروں میں سے بھی کچھ ہلاک ہو گئے۔
سکیورٹی حکام نے بتایا کہ 300 سے زائد یرغمالیوں کو بازیاب کرا لیا گیا اور ساتھ ہی کہا کہ آپریشن جاری ہے۔ تاہم ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ سکیورٹی اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بیانات دیے کیونکہ وہ میڈیا سے بات چیت کے مجاز نہیں تھے۔
قبل ازاں حکومت پاکستان نے بدھ کو کہا تھا کہ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ واقعے کے ایک روز بعد ٹرین میں یرغمال بنائے گئے مسافروں کے درمیان خود کُش جیکٹیں پہنے ہوئے عسکریت پسند بھی بیٹھے تھے، جس کے سبب ریسکیو کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی جبکہ عسکریت پسندوں کی مسافروں کو قتل کرنے کی دھمکی کی ڈیڈ لائن بھی قریب آ رہی تھی۔
منگل 11 مارچ کو پاکستانی صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس ٹرین کے ٹریک کو درجنوں علیحدگی پسند بلوچ عسکریت پسندوں نے دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ ایک سکیورٹی اہلکار کے مطابق جعفر ایکسپریس کی نو بوگیوں میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے۔
غیر معمولی ریسکیو آپریشن
جس کوہستانی علاقے میں یہ ٹرین روکی گئی تھی وہ ایک دور افتادہ مقام ہے۔ ریسکیو آپریشن میں سینکڑوں فوجی اور ہیلی کاپٹروں میں سوار ٹیمیں سرگرم رہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ٹرین ڈرائیور سمیت متعدد دیگر افراد تب تک مارے جا چکے تھے۔ جونیئر وزیر داخلہ طلال چوہدری نے جیو ٹیلی وژن کو بتایا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے اپنے جسموں پر بم باندھ رکھے تھے اور وہ ٹرین میں ہی مسافروں کے ساتھ لگ کر بیٹھے تھے جس کی وجہ سے یرغمال بنائے گئے مسافروں کو چھڑانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ طلال چوہدری کا کہنا تھا،” انہوں نے خود کش جیکٹیں پہن رکھی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”آپریشن بہت احتیاط سے کیا جا رہا ہے تاکہ یرغمالیوں میں شامل خواتین اور بچوں کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘ طلال چوہدری کے مطابق تقریباً 70 سے 80 حملہ آوروں نے ٹرین کو ہائی جیک کیا تھا۔
بلوچ لبریشن آرمی کی دھمکی
علیحدگی پسند گروپ بی ایل اے نے دھمکی دی تھی کہ اگر بلوچ سیاسی قیدیوں، بی ایل اے کے کارکنوں اور لاپتہ افراد کو 48 گھنٹوں کے اندر رہا نہ کیا گیا تو وہ یرغمالیوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے۔
بی ایل اے پاکستان میں فعال متعدد عسکریت پسند نسلی گروپوں میں سے سب سے بڑا مسلح گروپ ہے، جو افغانستان اور ایران سے متصل پاکستانی صوبے بلوچستان میں ایک عرصے سے حکومت کے خلاف لڑ رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں اس گروپ نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ اس بلوچ علیحدگی پسند مسلح گروپ نے اب نئی حکمت عملی اور حربے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد ہو۔ بی ایل اے کا ہدف اب براہ راست پاکستانی فوج ہے۔
بلوچ عسکریت پسند گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ کئی عشروں سے اپنے خطے کے معدنی ذخائر اور دولت میں اپنا حصہ لینے کی جنگ لڑ رہے ہیں جنہیں مرکزی حکومت دینے سے انکار کرتی رہی ہے۔
مزید کتنے مسافر بی ایل اے کے قبضے میں؟
منگل کو جعفر ایکسپریس ہائی جیک کرنے کے واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بی ایل اے نے کہا تھا کہ 214 مسافروں کو اس نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ بدھ تک تاہم اس بارے میں کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا تھا کہ تب تک کتنے یرغمالی بی ایل اے کے قبضے میں تھے۔
ایک سکیورٹی ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ ٹرین پر حملے کے وقت 425 افراد موجود تھے۔ ٹرین کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بلوچ باغیوں نے مسافروں کو باہر نکال کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرنا شروع کیے۔ ذرائع نے کہا،”وہ فوجیوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی تلاش میں تھے۔‘‘ سکیورٹی اہلکار کے مطابق کم از کم 11 افراد، بشمول نیم فوجی اہلکار، مارے گئے۔
سکیورٹی ذریعے کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے خلاف فوجی آپریشن میں بی ایل اے کے 30 جنگجو مارے گئے تاہم گزشتہ روز ہی اس گروپ نے اس خبر کی تردید کر دی تھی۔
دریں اثناء ریسکیو کیے گئے 50 سے زائد مسافروں کو کوئٹہ پہنچا دیا گیا۔ جعفر ایکسپریس میں سوار مسافروں کے اہل خانہ کا حکومت اور سکیورٹی اداروں پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے اہل خانہ کی جلد بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے۔