کوئٹہ (ویب ڈیسک) کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کی سبزی منڈی میں پیش آنے والے خودکش حملے کے خلاف ہزارہ قبیلے کے افراد کا دھرنا جاری ہے۔ ادھر حقوق انسانی کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کے خلاف کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گی۔
ہزار گنجی میں خودکش حملے کا واقعہ جمعے کو اس وقت پیش آیا تھا جب ہزارہ قبیلے کے پھل اور سبزی فروش وہاں خریداری کے لیے گئے تھے۔ اس واقعہ میں کم از کم 20 افراد شہید اور 48 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد ہزارہ قبیلے کے افراد اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا اور مغربی بائی پاس پر ہزارہ ٹاؤن کے قریب دھرنا دیا جو اب بھی جاری ہے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اس دھرنے کو ختم کروانے کے لیے مغربی بائی پاس جا کر شرکا سے ملاقات کی لیکن انھوں نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر نے ہزار گنجی میں پیش آنے والے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے محنت کش طبقے کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گذشتہ سال ان واقعات کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی جس کے بعد فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے فی الفور کاروائی کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ایک سال تک ہم نے ریلیف محسوس کیا لیکن ہزار گنجی کے واقعے نے پورے سال کی کسر پوری کر دی ہے۔
اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ وہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک ہزارہ خواتین اور بچوں کے ساتھ لانگ مارچ کریں گی جس کے لیے وہ اپنے عمائدین سے بات کریں گی۔
انہوں نے کہا ’ہم دہشت گردی سے تنگ آ چکے ہیں۔ حکومت بے اختیار ہے ہم اس سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’ہم اسلام آباد جائیں گے اور پاکستان کی ہر گلی اور کوچے سے گزر کر یہ بتائیں گے کہ ہم کون ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔؟‘