ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ: 5 لاکھ سے زائد تارکین وطن کی قانونی حیثیت ختم

واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکہ میں مقیم لاکھوں تارکین وطن کے لیے ایک بڑا دھچکا سامنے آیا ہے کیونکہ امریکی حکومت نے 5 لاکھ سے زائد تارکین وطن کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اس فیصلے کے مطابق ان افراد کو 24 اپریل تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ کے اس اقدام کو ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ملک بدری مہم قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی حکومت غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہے اور خاص طور پر لاطینی امریکی ممالک سے آنے والے افراد کو ملک میں داخلے سے روکنے کے لیے سخت پالیسی اپنائی جائے گی۔ اس فیصلے کے تحت کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا سے تعلق رکھنے والے وہ افراد متاثر ہوں گے جو سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں متعارف کرائے گئے امیگریشن پروگرام کے ذریعے امریکہ آئے تھے۔

رپورٹس کے مطابق یہ صدارتی حکم منگل کے روز جاری ہوگا اور اس کے بعد جب اسے وفاقی رجسٹر میں شائع کیا جائے گا تو 30 دن کے اندر ان افراد کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ اگر متاثرہ افراد نے کوئی متبادل امیگریشن حیثیت حاصل نہ کی تو انہیں 24 اپریل تک امریکہ چھوڑنا ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ لاکھوں خاندانوں کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈالے گا اور امریکہ میں امیگریشن سے متعلق ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔ امیگریشن سے متعلق سرگرم تنظیموں نے حکومت کے اس فیصلے پر سخت ردعمل دیا ہے ویلکم یو ایس نامی ادارے نے جو امریکہ میں پناہ کے متلاشی افراد کی مدد کرتا ہے نے متاثرہ افراد پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کسی امیگریشن وکیل سے مشورہ کریں تاکہ وہ کوئی قانونی راستہ تلاش کر سکیں۔

تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ہزاروں خاندانوں کے لیے مشکلات پیدا کرے گا جو بہتر زندگی کی تلاش میں امریکہ آئے تھے سی ایچ این وی پروگرام جس کے تحت ان ممالک سے ہر ماہ زیادہ سے زیادہ 30 ہزار افراد کو دو سال کے لیے امریکہ آنے کی اجازت دی گئی تھی اب غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔

ماہرین کے مطابق اس فیصلے کے بعد امریکہ میں پناہ کے متلاشی افراد کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی اور بہت سے افراد کو جبری ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں