اسلام آباد (ویب ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ نے ماڈل کورٹس کی کارکردگی کوسراہتے ہوئے کہا ہے کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں،نظام میں بہتری کے لیے سفارشات اورترامیم کو کبھی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔
پارلیمنٹ کا کام ہے کہ انسداد دہشتگردی کے قانون کو آسان بنائے، عدالتی جائزہ سے پہلے بہتر ہوگا پارلیمنٹ ایسے قوانین کا جائزہ لے جائیداد کے تنازعات کے فیصلے پولیس رپورٹس پر ہوتے ہیں کیا پولیس کا کام ہے کہ فریقین کے حقوق کا تعین کرے؟ سول مقدمہ میں پولیس کے کردار کا قانون سمجھ سے بالاتر ہے ۔اٹارنی جنرل کے ذریعے معاملہ حکومت کے نوٹس میں لائے ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ جج بنا تو پہلے دن سے ہی مشن تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جائیں، بار میں وکلا مجھے اور ساتھی ججز کو جنون گروپ کہتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سستا اور فوری انصاف فراہم کرے ماضی میں فیصلوں میں تاخیر کم کرنے کیلئے کئی تجربات کیے گئے،کبھی قانون میں ترمیم کبھی ڈو مور کی تجویز دی گئی ، ججز کو ڈو مور کا نہیں نہیں کہہ سکتے، ہمارے ججزجتنا کام کر رہے ہیں اتنا دنیا میں کوئی نہیں کرتا ،ملک میں مجموعی طور پر تین ہزار ججز ہیں گزشتہ سال عدالتوں نے 34 لاکھ مقدمات نمٹائے اس لئے ججز کو اس سے زیادہ ڈو مور کا نہیں کہہ سکتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکی سپریم کورٹ سال میں 80 سے 90 مقدمات نمٹاتی ہے برطانوی سپریم کورٹ سالانہ 100 مقدمات کے فیصلے کرتی ہے لیکن پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 26 ہزار مقدمات نمٹائے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کو کم کرنا ہے قانون کہتا ہے فوجداری کیس کی تحقیقات دو ہفتے میں مکمل ہوں دو ہفتے میں تفتیش مکمل کرکے چالان جمع کرانا لازمی ہے ،چالان جمع ہونے کے بعد عدالت کا کام ہے کہ کیس کا شیڈیول بنائے ،برطانیہ میں آج بھی کیس دائر کریں تو سال بعد کی تاریخ ملتی ہے لیکن برطانیہ میں جب کیس لگ جائے تو پھر التوا نہیں دیا جاتا ٹرائل کورٹ میں التوا کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس میں گواہان پیش کرنے میں پولیس کا تعاون مثالی ہے ملزمان کی عدم پیشی پر جیل حکام کیخلاف کارروائی ہوگی آئی جیل خانہ جات قیدیوں کیلئے مخصوص گاڑیوں کی موجودگی اور ملزمان کی پیشی یقینی بنائیں ،ماڈل کورٹس میں ملزمان کی پیشی یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ فرانزک لیب ماہرین بھی عدلیہ کیساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں سماعت سے پہلے تمام متعلقہ مواد عدالت میں موجود ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ تاخیرکا شکار مقدمات کو ٹارگٹ کرکے ختم کرنا ہے ۔مقدمات کے فوری فیصلے کرنے والوں کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ہم نے کوئی قانون تبدیل کیا ہے نہ ہی ضابطہ کارتبدیل کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ عدالتی جائزہ سے پہلے بہتر ہوگا پارلیمنٹ ایسے قوانین کا جائزہ لے جائیداد کے تنازعات کے فیصلے پولیس رپورٹس پر ہوتے ہیں کیا پولیس کا کام ہے کہ فریقین کے حقوق کا تعین کرے؟ سول مقدمہ میں پولیس کے کردار کا قانون سمجھ سے بالاتر ہے ۔
اٹارنی جنرل کے ذریعے معاملہ حکومت کے نوٹس میں لائے ہیں پارلیمنٹ خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کا جائزہ لے انسداد دہشتگردی قانون دیکھیں تو چوری اور زنا بھی دہشتگردی ہے، عدالت نے دہشتگردی دفعات کا جائزہ لینے کیلئے لارجر بنچ بنایا لارجر بنچ کا فیصلہ محفوظ ہے اس لیے اس پر بات نہیں کروں گا ،فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ انسداد دہشتگردی کے قانون کو آسان بنائے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ججز سماعت کیساتھ ہی فیصلہ لکھنا شروع کر دیں ساتھ ساتھ فیصلہ لکھا جاتا رہے تو دلائل مکمل ہوتے ہی فیصلہ بھی تیار ہوگا ان کا کہنا تھا کہ اعلی عدلیہ ہر سماعت کا مکمل حکمنامہ لکھواتی ہے ساتھ ساتھ لکھا جائے تو سماعت مکمل ہونے کے اگلے ہی دن حتمی فیصلہ آ سکتا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ماڈل کورٹس کیلئے تعاون اور ماہرین کی ٹیمز دینے پر ہائی کورٹس کا مشکور ہوں۔ڈی جی ماڈل کورٹس سہیل ناصر کے بغیر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا تھا ہائی کورٹس کو کہا تھا ماڈل کورٹس میں مجھے چیتے ججز چاہیں جو مقدمات پر جھپٹ پڑیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اپنے جوڈیشل ہیروز پر فخر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس کے ججز کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ایک ماہ بعد ماڈل کورٹس میں ایک ایک ججز کا اضافہ کرینگے کوشش ہوگی نئی ماڈل کورٹس سول مقدمات کی ہوں ۔پہلے مرحلے میں فیملی اور کرایہ داری مقدمات نمٹائے جائیں گے ۔کوشش ہے کہ آہستہ آہستہ تمام ججز ماڈل کورٹس کے ججز بن جائیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی شیخ نے عدالتی کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کاکہ ہماری ماڈل کورٹس مختصر مدت میں فوجداری کیسز نمٹانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ماڈل کورٹس نے بہت سے مقدمات نمٹائے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں ماڈل کورٹس کو فیملی اور رینٹ معاملات تک لیجایا جائے عدالتوں میں خود اعتمادی کیلئے فوری انصاف کی فراہمی ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ یکم اپریل 2019 سے اب تک ماڈل کورٹس نے بہت سے مقدمات نمٹائے۔ہم فوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس ضمن میں جو بھی رکاوٹیں آئیں گی ان کو عبور کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
اس دوران ڈی جی ماڈل کورٹس سہیل ناصر نے ماڈل کورٹس کی کارکردگی پر کانفرنس کے شرکاکو بریفنگ میں بتایا کہ ملک بھر کی 116 ماڈل عدالتوں نے دس دن میں 1464 فوجداری مقدمات کے فیصلے کیے، بلوچستان کی 24 ماڈل کورٹس نے 287 مقدمات کے فیصلے کیے، کے پی کی 27 ماڈل کورٹس نے 387 مقدمات ،پنجاب کی 36 ماڈل کورٹس نے 545 مقدمات،اسلام آ باد کی 2 ماڈل کورٹس نے مجموعی طور پر 54 مقدمات ،سندھ کی 27 ماڈل کورٹس نے 191 مقدمات کے فیصلے کیے، ڈی جی ماڈل کورٹس کا کہنا تھا کہ اس کار کردگی میں تمام سٹیک ہولڈرز کا کردار اہم ہے دس دن میں 5814 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
بلوچستان ہائیکورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے لیکن انصاف میں جلد بازی انصاف کا قتل ہے،دستیاب وسائل میں فراہمی انصاف کو ممکن بناناہے بلوچستان میں 24 ماڈل کورٹس قائم کی گئی جنہوں نے 12 روز میں 87 کیسز کا فیصلہ کیا بلوچستان میں چار اضلاع کی ماڈل۔کورٹس نے فوجداری کیسز کو نمٹا دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ماتحت عدلیہ سے کیسز کے فیصلوں کا بوجھ ہائیکورٹ پر پڑتا ہے۔ہمیں فیصلوں کے معیار کو بھی برقرار رکھنا ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے خطاب کے دوران کہاکہ کے پی کے میں قائم ماڈل کورٹس نے 12 روز میں بڑا زبردست کام کیا ہے یہ فارمولا دیگر سول کیسز پر بھی اپلائی کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کا ڈیم صرف مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر تک محدود نہیں ،چیف جسٹس فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ چاہتے ہیں زیر التوا مقدمات کیخلاف ڈیم بہت ضروری تھا کیونکہ موجودہ عدلیہ کو زیرالتوامقدمات کا بوجھ ورثے میں ملا۔
ایک ماہ بعد ماڈل کورٹس میں ایک جج کا اضافہ کریں گے اور اسی طرح ہر ماہ ایک جج کا اضافہ کرتے رہیں گے ،یہاں تک کہ ہم تمام ججز ماڈل ججز کسی طرح کام کرنا شروع کردیں ، اگلی ماڈل کورٹ سول ،سول ماڈل کورٹ ہو گی اور یہ عدالت فوری نوعیت کے فیملی کیسز اور رینٹ کے کیسز سنے گی اور پھر ہم اہم نوعیت کے دوسرے کیسز بھی سنیں گے ۔