اسلام آباد + کراچی + کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/بی بی سی) پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے بدھ کے دن وحید مراد کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان پر پیکا ایکٹ کے تحت آرمی چیف عاصم منیر کے خاندان کی تصاویر دکھانے والے صحافی احمد نورانی کی خبر شیئر کرنے اور ملکی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کا الزام عائد کرتے ہوئے دس روزہ ریمانڈ کی درخواست کی۔ تاہم سول عدالت نے دو دن کا ریمانڈ منظور کرتے ہوئے وحید مراد کو ایف آئی اے کا سپرد کر دیا۔
یاد رہے کہ صحافی احمد نورانی کے دو بھائیوں کو بھی ایک ہفتہ قبل رات کے اوقات میں مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا۔ نورانی کے بھائی تاحال لاپتا ہیں، نہ پولیس اور نہ ہی کوئی اور ادارہ انہیں ’اٹھانے‘ یا گرفتار کرنے کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔
منگل اور بدھ کی درمیانی رات وحید مراد کو بھی اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے سیاہ وردی میں ملبوس افراد نے مبینہ طور پر اغوا کر لیا تھا۔ صبح دیر تک پولیس یا قانون نافذ کرنے والے کسی دیگر ادارے نے انہیں حراست میں لینے کا اعتراف نہیں کیا۔
وحید مراد کی ساس نے ان کے بازیابی کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس کی سماعت کل بروز جمعرات مقرر تھی۔ تاہم درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری کو بعد از دوپہر غیر رسمی ذرائع سے معلوم ہوا کہ وحید مراد کو سول عدالت میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد وہ فوری طور پر وہاں پہنچ گئیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق ایف آئی اے کا الزام ہے کہ وحید مراد نے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) اور بلوچستان کے حوالے سے متنازعہ پوسٹس کیں، اس لیے ان کے ایکس اور فیس بک اکاؤنٹ کے حوالے سے تفتیش کرنا ہے۔ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ اداروں کے خلاف اشتعال پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
صحافیوں کیلئے کیا اسلام آباد غیر محفوظ ہو گیا؟
صحافیوں اور وکلا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں عام شہریوں کے لیے حالات غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں اور بالخصوص چھبیسویں آئینی ترمیم اور اعلیٰ عدلیہ میں نئے ججوں کی تعیناتی کے بعد عدالتوں سے بھی زیادہ امید نہیں رہی۔
معروف صحافی حامد میر کے بقول، “جس طرح وحید مراد کو گرفتار کیا گیا اور نورانی کے بھائیوں کا جو معاملہ ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام آباد آج کل عام شہریوں کے لیے خطرناک شہر بنتا جا رہا ہے۔”
خیال ہے کہ نورانی کے بھائی مبینہ طور پر اب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہیں اور صحافتی و قانونی برادری نہ صرف ان کی رہائی کے لیے عدالتوں سے رجوع کر رہی ہے بلکہ بااثر حلقوں سے بھی اپیل کر رہی ہے کیونکہ ان کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ صحافی برادری کا کہنا ہے کہ ریاست بوکھلاہٹ میں غیر قانونی اقدامات اٹھا رہی ہے تاکہ تنقیدی آوازوں کو دبایا جا سکے۔
معروف صحافی اور انسانی حقوق کے حامی مطیع اللہ جان کہتے ہیں، “ریاست گھبرا چکی ہے۔ شہریوں کو اغوا کرکے کچھ وقت کے لیے لاپتا رکھنا اور پھر بعض صورتوں میں ان پر بے بنیاد الزامات لگا کر مقدمے درج کرنا دراصل صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو خاموش کرانے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔ انصاف کا نظام بھی آوازیں دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔”
عدالتی نظام کیا استعمال کیا جا رہا ہے؟
وکلاء برادری کا موقف ہے کہ نہ صرف عدالتی نظام کو صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ وکلاء اور خود قانون کی بھی توہین کی جا رہی ہے۔ وحید مراد اور نورانی کے بھائیوں کی وکیل ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ عدالتیں ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہیں اور ان کا رویہ غیر معمولی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اب تک احمد نورانی کے بھائیوں کی گمشدگی کے معاملے کو اس طرح نہیں دیکھ رہی جیسے اسے دیکھنا چاہیے تھا۔
وحید مراد کے حالیہ کیس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جج اتنی جلدی میں تھا کہ اس نے بس وحید مراد کے ریمانڈ پر دستخط کیے اور فوراً چلا گیا، “جج نے ہمیں مراد کے ساتھ قانونی معاہدے پر دستخط کرنے کا وقت ہی نہیں دیا تاکہ وکالت نامے کی عدم موجودگی کی صورت میں دیے گئے ریمانڈ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا، “مجھے اور میرے شوہر ہادی علی چٹھہ کو بھی وکیل کے تقرر کے کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کے دوران قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور یہ بربریت کی ایک مثال ہے۔”
صحافی فرحان ملک ایک اور مقدمے میں بھی گرفتار
کراچی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے صحافی فرحان ملک کو ایک اور مقدمے میں گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر غیر قانونی کال سینٹر چلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ فرحان ملک کو بدھ کی صبح ملیر میں جوڈیشل مئجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے پانچ روز کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا۔
فرحان ملک کے وکیل ایڈووکیٹ عبدالمعیز جعفری نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز ریمانڈ ختم ہونے کے بعد عدالت نے جیل کسٹڈی کا حکم جاری کیا تھا۔
تاہم ایف آئی اے نے ان کو اپنی تحویل میں رکھا اور بُدھ کی صبح ریمانڈ لیا اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے ایک مبینہ کال سینٹر پر چھاپہ مار کر دو ملازمین کو گرفتار کیا تھا، جن کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی کال سینٹر کے مالک فرحان ملک ہیں۔
اس سے قبل 21 مارچ کو کراچی کی ایک مقامی عدالت نے صحافی فرحان ملک کو چار روز کے جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا۔
خیال رہے کہ ایف آئی اے نے صحافی اور نجی ٹی وی چینل کے سابق ڈائریکٹر نیوز اور سوشل میڈیا چینل کے چیئرمین فرحان ملک کو ایف آئی اے کے سائبر سرکل نے 20 مارچ کو گرفتار کیا تھا۔
ان کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر میں الزامات میں درج کیا گیا ہے صحافی فرحان ملک اپنے یو ٹیوب چینل، ’رفتار ٹی وی‘ پر مبینہ طور پر ریاست مخالف مواد نشر کرتے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزامات ہیں کہ وہ ایسی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں جو فیک نیوز پر مشتمل ہیں اور عوام میں اشتعال پھیلا رہے ہیں۔
پیر کو پیشی کے موقع پر صحافی فرحان ملک کے وکیل عبدالمعیز جعفری نے عدالت کو بتایا کہ صحافی فرحان ملک کے خلاف پہلے سے انکوائریز جاری تھیں۔
بی بی سی سے گفتگو میں ان کے وکیل عبدالمعیز جعفری نے بتایا کہ فرحان ملک کے خلاف ایف آئی اے کی انکوائریز کا یہ سلسلہ گذشتہ برس نومبر میں شروع ہوا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پہلا نوٹس نومبر میں آیا تھا۔ اور ان کے یو ٹیوب چینل کے کچھ لنکس لگا کر کہا گیا تھا کہ آپ ریاست مخالف کام کر رہے ہیں۔‘
وکیل عبدالمعیز جعفری نے بتایا کہ اس وقت ایف آئی اے کی جانب سے انھیں گرفتارکرنے سے پہلے ہی ہم عدالت گئے تھے اور عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں نے اس کے بعد انھیں کراچی اور اسلام آباد میں متعدد بار ایف ائی اے کے سامنے جانا پڑا۔
خیال رہے کہ فرحان ملک کے خلاف ایف آئی اے نے پیکا کے ترمیمی ایکٹ کے تحت بھی ایف آئی آر کاٹی ہے۔
ان کے وکیل نے کہا کہ ایک بار عدالت میں وہ پیش نہیں ہو سکے جس پر حکم امتناعی کو ہٹا دیا گیا، جس کی وجہ سے ایف آئی اے کو موقع ملا اور انھوں نے فرحان ملک کو گرفتار کر لیا۔
وکیل عبدالمعیز جعفری کہتے ہیں کہ فرحان ملک کا نام پہلے ای سی ایل میں بھی ڈالا گیا تھا اور تاحال ان کے خلاف ریاست مخالف بات کیے جانے کے کوئی شواہد پیش نہیں۔
کوئٹہ سے صحافی محمد عثمان لاپتہ، اہل خانہ کا اغوا کا الزام
کوئٹہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مقامی صحافی محمد عثمان کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ ان کے والد نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کو سرکاری وردی میں ملبوس مسلح افراد نے زبردستی اپنے ساتھ لے لیا۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ محمد عثمان کو پہلے بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے، اور اس سے قبل ان کے گھر پر پاکستانی فورسز کی جانب سے چھاپے بھی مارے گئے تھے۔ تاہم، حکام کی جانب سے اس واقعے پر کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا۔