کوئٹہ + کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں چوتھے روز بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
یہ مظاہرے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام کیے گئے۔
کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مظاہرہ نہیں کرنے دیا گیا اور احتجاج کے لیے جمع ہونے والوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے ان گرفتاریوں کے خلاف بلوچستان بھر میں مظاہروں کی کال دی گئی تھی۔
کوئٹہ شہر میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام مظاہرہ کوئٹہ پریس کلب کے باہرکیا گیا۔
مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنما بھی اظہار یکجہتی کے طور پر شریک ہوئے۔
مظاہرے سے بی این پی کے رہنما ساجد ترین ایڈووکیٹ، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی اور این ڈی ایم کے رہنما احمد جان کاکڑ کے علاوہ دیگر رہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری اور ان پر تشدد کی مذمت کی۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کوئٹہ شہر سمیت آٹھ شہروں میں احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
کوئٹہ میں اسمنگلی روڈ پر بورڈ آفس سے پریس کلب تک ریلی نکالی جانی تھی لیکن بورڈ آفس پر پولیس کی بھاری نفری نے ریلی میں شرکت کے لیے آنے والوں کومنتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی جبکہ بعض لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ بورڈ آفس سے احتجاج کے لیے جمع ہونے والی نو خواتین کو گرفتار کیا گیا جن کو بعد میں سول لائنز پولیس سٹیشن منتقل کیا گیا۔ کوئٹہ کے علاوہ جن دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیئے گئے ان میں وڈھ ، سوراب، پنجگور، نوکنڈی ، تمپ اور وندر وغیرہ شامل تھے۔
سمی دین محمد کی رہائی کیلئے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر
ادھر سندھ ہائی کورٹ میں سمی دین محمد کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف آئینی درخواست دائر کی گئی ہے۔ سمی دین محمد کی چھوٹی بہن مہلب کی جانب سے دائر اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سمی دین محمد انسانی حقوق کی کارکن ہے اور اس کو کئی عالمی ایوارڈ ملے چکے ہیں۔
درخواست کے مطابق اس وقت وہ آئی بی اے کے شعبہ صحافت میں زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریٹری ان کے والد بھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔
درخواست کے مطابق سمی 24 مارچ کو ساڑھے پانچ بجے دیگر کارکنوں کے ساتھ، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کراچی پریس کلب کے قریب پرامن احتجاج کر رہی تھیں۔ تاہم اس مظاہرے کی پرامن نوعیت کے باوجود، سندھ پولیس نے غیر قانونی طور پر مداخلت کی اور زیر حراست کو گرفتار کر لیا۔
درخواست میں بتایا گیا ہے کہ اگلے دن 25 مارچ کو زیر حراست ملزم کو کراچی جنوبی کی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ تاہم سکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے مقدمہ عدالت مجسٹریٹ نہم جنوبی کو منتقل کر دیا گیا، جہاں مجسٹریٹ نے ایک عدالتی حکم کے ذریعے، انھیں دفعہ 63 سی آر پی سی کے تحت بری کر دیا۔
درخواست کے مطابق اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر غیر سنگین جرم پر درج کی گئی تھی جو قانون کے تحت جائز نہیں ہے۔
کیونکہ یہ عدالت کی اجازت کے بغیر سب ہوا اور عدالت کی اجازت کے بغیر غیر سنگین جرم میں گرفتاری بھی نہیں کی جا سکتی۔
مہلب نے اپنی درخواست میں بتایا ہے کہ ان کی بہن کو عدالتی کمپلیکس کے احاطے میں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا، جہاں مجسٹریٹ کی عدالت واقع ہے۔
ان کے مطابق مجسٹریٹ کی جانب سے رہائی کے فوراً بعد ان کی دوبارہ گرفتاری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکام نے عدالتی جانچ پڑتال سے قطع نظر ان کی مسلسل حراست کی پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ایم پی او کے حکم نامے میں پانچ افراد کے نام درج تھے۔ پولیس نے چار دیگر افراد کو رہا کر دیا، جن میں عبد الوہاب بلوچ نامی 60 سالہ شخص بھی شامل تھا جبکہ پولیس نے سمی کے سیاسی پروفائل کی وجہ سے ان کی گرفتاری کو ترجیح دی۔
اس درخواست میں گزارش کی گئی ہے کہ ایم پی او کے حکم نامے کو مسترد کرکے سمی دین محمد کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ جمعرات کو اس درخواست کی سماعت کرے گا۔