غزہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ ڈی پی اے) غزہ میں فلسطینی عوام نے حماس کی دہشتگردانہ سرگرمیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ رمضان کے عشرہ اواخر میں فلسطینیوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور حماس کے شدید خلاف نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے “حماس غزہ کے باہر دفع ہو جاؤ! حماس تمام دہشت گرد ہو” کے نعرے بلند کیے، اور حماس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس کے اقدامات نے غزہ کے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حماس کی قیادت نے غزہ کے فلسطینیوں کے حقوق کا استحصال کیا ہے اور ان کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق منگل کو شمالی غزہ میں پہلی بار سینکڑوں فلسطینیوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک احتجاجی مظاہرے میں حماس کے خلاف نعرے لگائے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق زیادہ تر مظاہرین مرد تھے، جو ‘حماس آؤٹ‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور اس فلسطینی تنظیم کو ‘دہشت گرد‘ قرار دے رہے تھے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ مظاہرہ بیت لاہیہ نامی علاقے میں ہوا۔ تقریباً دو ماہ کی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر شدید بمباری دوبارہ شروع کرنے کے ایک ہفتے بعد یہ ہجوم وہاں جمع ہوا تھا۔ غزہ پٹی میں اسرائیل کی تازہ بمباری میں اب تک 792 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا نیٹ ورک ‘ٹیلیگرام‘ پر اس احتجاج کے لیے ایک اپیل منگل کے روز کی گئی تھی۔ اس مظاہرے میں شریک ایک شخص سید محمد نے کہا، ”مجھے نہیں معلوم کہ یہ مظاہرہ کس نے منظم کیا۔‘‘ تاہم یہ فلسطینی خوف زدہ نظر آتا تھا۔
اس نے مزید بتایا، ”میں نے عوام کی طرف سے پیغام دینے کے لیے احتجاج میں حصہ لیا ہے کیونکہ جنگ بہت زیادہ اور طویل ہو چکی ہے۔ میں نے وہاں حماس کے لوگوں کو اس مظاہرے کو منتشر کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘
ایک اور شخص کا، جو مظاہرے میں شریک ہوا اور جس نے اپنا نام مجیدی بتایا، کہنا تھا، ”لوگ اب تھک چکے ہیں۔‘‘ اس نے مزید کہا، ”اگر حماس کے اقتدار چھوڑ دینے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے، توعوام کے تحفظ کے لیے حماس اقتدار چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟‘‘
غزہ پٹی میں اس طرح کے مظاہرے غیرمعمولی سمجھے جاتے ہیں۔ حماس پر نکتہ چینی بھی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ عسکریت پسند گروپ اپنے داخلی مخالفین کے خلاف سخت کارروائی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
مظاہرہ اسرائیلی مطالبات کے عین مطابق
اسرائیل تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ غزہ میں 2007 سے برسراقتدار حماس اقتدار سے الگ ہو جائے۔ لیکن غزہ میں حماس کے خلاف عدم اطمینان کی سطح کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں’فلسطین سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ‘ کا ایک سروے سامنے آیا تھا، جس کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد بھی 35 فیصد فلسطینی حماس کے حامی ہیں جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے حق میں 26 فیصد فلسطینی باشندے ہیں۔
قبل ازیں غزہ پٹی میں الفتح کے ایک ترجمان نے ہفتے کے روز حماس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے ”وجود‘‘ کے تحفظ کے لیے ”حکومت سے الگ ہو جائے۔‘‘
غزہ پٹی اسرائیل اور حماس کے درمیان 17 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ سے تباہ ہو چکی ہے، جب کہ دو مارچ کو اسرائیل کی جانب سے حماس کے عسکریت پسندوں کو اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں اس علاقے کو ہر قسم کی امداد کی ترسیل روک دیے جانے کے بعد سے وہاں انسانی صورتحال پھر انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل میں ایک بڑے دہشت گردانہ حملے میں 1200 سے زائد اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ جنگجو تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی لے گئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں وسیع تر زمینی اور فضائی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، جن میں اب تک 50,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان فلسطینی ہلاک شدگان میں بہت بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔