نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کے ماہرین نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ زیر حراست بلوچ حقوق کے کارکنوں کو فورا رہا کرے اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن بند کرے۔ اسلام آباد نے اقوام متحدہ کے اس بیان کو غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس پر مبنی قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین نے بدھ کے روز مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکومت حالیہ مظاہروں کے بعد حراست میں لیے گئے بلوچ حقوق کے کارکنوں کو رہا کرے اور مبینہ جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کے دیگر مسائل کے خلاف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کو بند کرے۔
اسلام باد نے بھی بدھ کے روز ہی اقوام متحدہ کے ماہرین کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کا اس نے نوٹس لیا ہے، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بظاہر منتخب اور غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔
کارکنان کی گرفتاریاں اور تشدد
گزشتہ جمعہ کی شام کو پولیس نے کوئٹہ میں دھرنا دینے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل، واٹر کینن اور خالی گولیوں کا استعمال کیا تھا۔ تاہم صوبائی حکومت اور بی وائی سی دونوں نے اس واقعے میں تین افراد کی ہلاکت اور 13 کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس نے بھی تقریبا 10 اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی۔
گرفتار ہونے والوں میں بی وائی سی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں، جو انسانی حقوق کی ایک معروف علمبرادر ہیں اور طویل عرصے سے بلوچ نسلی گروپ کے لیے مہم چلاتی رہی ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کو 150 دیگر افراد کے ساتھ دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا، جس کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی ہوئی۔ کراچی میں بی وائی سی کی کارکن سمی دین بلوچ کو احتجاج کرنے پر حراست میں لیا گیا، جنہیں بعد میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے رہائی کا حکم دیا گیا تاہم اس کے باوجود انہیں امن عامہ کو خراب کرنے کے الزام کے تحت دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے کیا کہا؟
جنیوا سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے آزاد ماہرین کے ایک گروپ نے کہا کہ حکومت کو “حراست میں لیے گئے بلوچ انسانی حقوق کے محافظوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے اور پرامن مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن بند کرنا چاہیے۔”
اس مشترکہ بیان میں ماہرین نے مزید کہا کہ “ہم گزشتہ کئی مہینوں سے بلوچ کارکنوں کی مبینہ گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کی بڑھتی ہوئی تشویشناک رپورٹس پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جبکہ گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات نے ہمارے خدشات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔”
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ماہرین نے بلوچستان کے ضلع بولان میں رواں ماہ جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے کے تناظر میں بی وائی سی کی قیادت کے خلاف کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے سلسلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بیان کے مطابق اسی واقعے کے بعد، “بی وائی سی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کئی سرکردہ محافظوں کو مبینہ طور پر پاکستان کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے گرفتار کیا یا انہیں جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔”
گزشتہ جمعہ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ انہوں نے ایک بار پھر حکام کی جانب سے پہلے پرامن احتجاج کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کو دیکھا ہے۔
بیان میں کہا گیا، “ہم 11 مارچ کے دہشت گردانہ حملے کے گہرے تکلیف دہ اثرات کو سمجھتے ہیں اور ہم اس حملے کے متاثرین سے اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔”
ماہ رنگ اور سمی کی حراست کے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے، ماہرین نے کہا کہ وہ پرامن اجتماع کے حق کو استعمال کرنے پر حراست میں لیے گئے انسانی حقوق کے محافظوں کی فلاح و بہبود کے لیے “انتہائی فکر مند” ہیں۔
ماہرین نے کہا، “ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ انہیں فوری طور پر رہا کریں اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف انسداد دہشت گردی یا عوامی تحفظ کے اقدامات کا غلط استعمال کرنے سے گریز کریں۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلا تاخیر اس بات کی وضاحت کریں کہ مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے تمام افراد آخر کس حال میں ہیں ان کا ٹھکانہ کہاں ہے۔”
تبصرے ‘توازن اور تناسب سے عاری’ ہیں، پاکستان
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے ماہرین کے بیان کے جواب میں کہا کہ یہ تبصرے “منتخب اور غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس” پر مبنی ہیں اور اس میں “توازن اور تناسب” کا فقدان ہے۔
دفتر خارجہ نے بدھ کے روز جو بیان جاری کیا اس میں کہا گیا، “ہم نے اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز کا نوٹس لیا ہے، جو بظاہر منتخب اور غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا، “یہ ضروری ہے کہ اس نوعیت کے عوامی بیانات معروضیت کے اصولوں پر عمل کریں، سلیکٹیو تنقید سے گریز کریں، حقائق کی درستگی کی عکاسی کریں، اور صورتحال کے مکمل تناظر کو تسلیم کریں۔”
بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے تبصروں میں دہشت گردانہ حملوں سے ہونے والی شہری ہلاکتوں کو کم کر کے پیش کیا گیا ہے اور ایسے شرپسندوں کے جرائم کو نظر انداز کر دیا گیا، جو جان بوجھ کر عوامی خدمات میں خلل ڈالتے ہیں، نقل و حرکت کی آزادی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
اسلام آباد نے اپنے بیان میں کہا کہ “کسی بھی معتبر جائزے کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ عناصر محض مظاہرین نہیں ہیں بلکہ لاقانونیت اور تشدد کی ایک وسیع مہم میں سرگرم طور پر شریک ہیں۔ ان کی قانون کی خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”
دفتر خارجہ نے کہا، “مبینہ شکایات کے پیچھے چھپنے والے یہ عناصر دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کر رہے ہیں، جو ریاستی ردعمل میں رکاوٹ ڈالنے کی ان کی مربوط کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں دہشت گردانہ حملوں کی سہولت فراہم کرنے والی ہم آہنگی والی رکاوٹیں بھی شامل ہیں۔”
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ان کے گٹھ جوڑ کا تازہ ترین ثبوت کوئٹہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال پر ان کا غیر قانونی دھاوا تھا، جہاں انہوں نے جعفر ایکسپریس کے یرغمالیوں کو بچانے کے آپریشن کے دوران مارے گئے پانچ دہشت گردوں کی لاشیں زبردستی قبضے میں لے لیں۔ “ان میں سے تین لاشوں کو پولیس نے ان پرتشدد مظاہرین سے بڑی مشکل سے حاصل کیں۔”
دفتر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون واضح طور پر افراد، اداروں یا گروہوں کو دوسروں کے حقوق اور سلامتی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال سے منع کرتا ہے اور خودمختار ریاستوں کے عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اور ضروری کارروائی کرنے کے حق کو مضبوطی سے برقرار رکھتا ہے۔
بیان کے مطابق “حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی جانوں اور سلامتی کی حفاظت کرے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بے گناہ شہری غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ حکومت نے نسلی یا مذہبی پس منظر سے قطع نظر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے سماجی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مسلسل پالیسیوں پر عمل کیا ہے۔”