رمضان کے دوران پاکستان میں عسکریت پسندی میں خطرناک اضافہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) ماضی میں کچھ عسکریت پسند گروپ رمضان کے دوران اپنے مسلح حملے روک دیا کرتے تھے، لیکن پاکستان میں حالیہ برسوں میں تشدد میں مجموعی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستانی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے پیر 31 مارچ کو جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اتوار کو ختم ہونے والے رمضان کے مہینے کے دوران ملک میں کم از کم 84 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال رمضان کے دوران چھبیس حملے ہوئے تھے۔

ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے نومبر 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی یکطرفہ طور پر ختم کر دی تھی۔ دوسری طرف بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بڑے پیمانے پر حملے کرنے کی اپنی صلاحیت بڑھا لی ہے۔ ان دونوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

11 مارچ کو جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ کے پیچھے کالعدم تنظیم بی ایل اے کا ہاتھ تھا۔ اس واقعے میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے۔

عوامی اعتماد کی بحالی سب سے اہم

ایک اور تھنک ٹینک، پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رمضان کے پہلے تین ہفتوں میں 61 حملے ریکارڈ کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ رمضان میں کل 60 حملے ہوئے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق یہ سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے لحاظ سے پاکستان میں پچھلی ایک دہائی میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو مارچ سے 20 مارچ تک کے درمیان 56 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے دہشت گردانہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ”مختلف گروپوں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے۔‘‘

خان نے کہا، ”بلوچ دھڑے آپس میں ہاتھ ملا رہے ہیں۔ کچھ علاقوں (شمال مغربی پاکستان) میں حافظ گل بہادر کا دھڑا پاکستانی طالبان سے زیادہ مہلک ہے، یہ ان سے مسابقت کر رہا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ لشکر اسلام، جو شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں زیادہ فعال ہے، جیسی کالعدم تنظیموں کا احیا بھی ہوا ہے۔

پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت پر ایسے گروہوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ طالبان کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے ان گروپوں کی سرگرمیاں کافی بڑھ گئی ہیں۔ تاہم کابل ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

عبداللہ خان انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ناکامیوں کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ کا واقعہ پیش آیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد میں خلیج بڑھ گئی ہے۔ ”عوام کے اعتماد کو بحال کرنا سب سے اہم ہے۔ عوام ہی دفاع کی پہلی لائن ہوتے ہیں۔‘‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں