11 سال بعد دہشتگردی کے واقعات میں سنگین اضافہ، مارچ میں 100 سے زائد حملے

اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2025 میں ملک میں تشدد اور سیکیورٹی آپریشنز میں تیزی آئی، اور نومبر 2014 کے بعد پہلی بار دہشت گردوں کے حملوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔

تفصیلات کے مطابق تھنک ٹینک نے مارچ کے مہینے کے دوران 105 حملوں کی اطلاع دی، جس کے نتیجے میں 228 افراد ہلاک ہوئے جن میں 73 سیکیورٹی اہلکار، 67 شہری شامل ہیں، جب کہ 88 دہشت گرد بھی مارے گئے، مزید برآں 258 افراد زخمی ہوئے جن میں 129 سیکیورٹی اہلکار اور اتنی ہی تعداد میں عام شہری شامل ہیں۔

سیکیورٹی فورسز نے انسداد دہشت گردی کی کارروائیان بھی تیز کیں جس کے نتیجے میں 83 دہشت گرد ہلاک، 13 سیکیورٹی اہلکار اور 11 عام شہریوں سمیت 107 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ 31 دیگر زخمی ہوئے جن میں 9 سیکیورٹی اہلکار اور 4 دہشت گرد شامل ہیں۔

مجموعی طور پر دہشت گردوں کے حملوں اور سیکیورٹی آپریشنز میں 335 افراد ہلاک ہوئے جن میں 86 سیکیورٹی اہلکار، 78 عام شہری اور 171 عسکریت پسند شامل ہیں۔

عسکریت پسندی کے ڈیٹا بیس (ایم ڈی) کے مطابق، مارچ 2025 میں اگست 2015 کے بعد سے مجموعی طور پر سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں، جنوری 2023 کے بعد سے اسی مہینے میں سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی دیکھی گئی، جب 114 اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

جنوری 2023 کے بعد گزشتہ ایک دہائی میں یہ ملک کی سیکیورٹی فورسز کے لیے دوسرا مہلک ترین مہینہ تھا۔

خودکش حملوں میں اضافہ

مارچ کے مہینے میں 6 خودکش دھماکے ہوئے جو حالیہ برسوں میں ایک مہینے میں سب سے زیادہ ہیں، ان حملوں کے نتیجے میں 59 افراد ہلاک ہوئے جن میں 15 عام شہری، 11 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں، جبکہ 33 عسکریت پسند بھی مارے گئے، ان واقعات میں 94 افراد زخمی ہوئے جن میں 56 سیکیورٹی اہلکار اور 38 عام شہری شامل تھے۔

ان میں سے 3 خودکش حملے بلوچستان میں، 2 خیبر پختونخوا (کے پی) میں اور ایک سابقہ فاٹا میں ہوا، جو اب کے پی کے قبائلی اضلاع کا حصہ ہے۔

سب سے زیادہ متاثرہ صوبے

بلوچستان اور خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے رہے، سب سے قابل ذکر واقعات میں سے ایک 11 مارچ کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بشیر زیب گروپ کی جانب سے جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 26 یرغمالی ہلاک اور 33 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

صوبے میں ہونے والے 3 خودکش حملوں میں سے ایک گاڑی میں ہوا، مبینہ طور پر بی ایل اے ہربیار مری گروپ (بی ایل اے آزاد) سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون خودکش بمبار نے یہ حملہ کیا، جب کہ دوسرے حملے کی ذمہ داری بی ایل اے بشیر زیب گروپ نے قبول کی، بی این پی مینگل کی ریلی کو نشانہ بناتے ہوئے مشتبہ خودکش حملے کا دعویٰ تاحال کسی گروہ نے نہیں کیا۔

مجموعی طور پر بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں اور سیکیورٹی آپریشنز میں کم از کم 122 ہلاکتیں ہوئیں جن میں 40 عام شہری، 37 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے اور 45 دہشت گرد بھی مارے گئے۔

مزید برآں، ان واقعات میں 148 افراد زخمی ہوئے جن میں 79 شہری اور 69 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں، سیکیورٹی فورسز نے کم از کم 8 مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا، جب کہ دہشت گردوں نے مبینہ طور پر 11 افراد کو اغوا کیا۔

خیبر پختونخوا میں کم از کم 206 افراد مارے گئے جن میں 49 سیکیورٹی اہلکار، 34 عام شہری ہلاک اور 123 دہشت گرد ہلاک ہوئے، جب کہ 115 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں 63 سیکیورٹی اہلکار اور 49 عام شہری شامل ہیں۔

صوبے میں 124 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں جن میں 32 عام شہری، 30 سیکیورٹی اہلکار اور 62 دہشت گرد شامل ہیں، جب کہ 65 افراد زخمی ہوئے، قبائلی اضلاع (جو سابقہ فاٹا تھے) میں 82 ہلاکتیں ہوئیں جن میں 19 سیکیورٹی اہلکار، دو عام شہری ہلاک اور 61 دہشت گرد مارے گئے، اس مہینے کے دوران خیبر پختونخوا میں 123 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے ساتھ سیکیورٹی کارروائیوں میں نمایاں تیزی ریکارڈ کی گئی۔

پنجاب میں گرفتاریاں

پنجاب میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا، جہاں کم از کم 7 حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران پنجاب میں ایک ماہ میں دہشت گردوں کے یہ سب سے زیادہ حملے ہیں، ان میں سے 6 حملے ڈیرہ غازی خان میں ہوئے جہاں ٹی ٹی پی کے پی کی سرحد پر اپنی موجودگی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے، صوبے میں 6 ہلاکتیں ہوئیں جن میں 3 عام شہری ہلاک ہوئے اور 3 شدت پسند بھی مارے گئے۔

دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی فورسز نے پنجاب میں اپنی کارروائیاں تیز کیں، محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ٹی ٹی پی سمیت مختلف عسکریت پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم 22 افراد کو گرفتار کیا، یہ تمام گرفتاریاں لاہور میں ہوئیں۔

سندھ میں 3 حملے

سندھ میں مارچ میں کم شدت کے 3 حملے ہوئے جن کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک اور 6 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 7 افراد زخمی ہوئے، ایک حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما کو نشانہ بنایا گیا تھا، جب کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے پولیس اسٹیشن پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اسلام آباد، گلگت بلتستان یا آزاد جموں و کشمیر میں کسی عسکریت پسند حملے کی اطلاع نہیں ملی، تاہم سیکیورٹی فورسز نے آزاد کشمیر میں ٹی ٹی پی کے ایک عسکریت پسند کو گرفتار کر کے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ملک بھر میں 260 حملے کرنے کا دعویٰ

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے دعویٰ کیا ہے کہ تنظیم نے رواں سال مارچ (رمضان المبارک) میں ملک بھر میں 260 حملے کیے، جن میں 175 افراد ہلاک اور 212 زخمی ہوئے۔

ترجمان کے مطابق سب سے زیادہ حملے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان (39) اور خیبر (32) میں کیے گئے۔ حملوں میں 123 اسنائپر اور لیزر حملے، 52 گوریلا کارروائیاں، 27 بم دھماکے، اور 21 تعارضی حملے شامل تھے۔

محمد خراسانی نے دعویٰ کیا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں 172 فوجی اہلکار، 115 ایف سی اہلکار، اور 95 پولیس و سی ٹی ڈی اہلکار شامل ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان نے مزید کہا کہ تنظیم نے 61 سی سی ٹی وی کیمرے، 18 فوجی گاڑیاں اور 7 فوجی تعمیرات تباہ کیں، جبکہ 11 کلاشنکوف، 5 جی تھری گنز اور 4 گاڑیاں بطور جنگی سامان قبضے میں لی ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں