کوئٹہ (ڈیلی اردو) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف چھ اپریل بروز اتوار کو مستونگ کے علاقے لک پاس سے کوئٹہ کی جانب مارچ کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کی شام دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس بیابان میں ہماری بات نہیں سن رہی، اس لیے اب کوئٹہ جا کر ان سے بات ہوگی۔
دوسری جانب حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کے شرکا کو روکنے کے لیے کوئٹہ آنے والی تمام شاہراہوں اور راستوں پر مزید رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ان رکاوٹوں کی وجہ سے عام عوام کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عوام کے تحفظ کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بی وائی سی کی خواتین کی رہائی کے حوالے سے ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد کوئٹہ کی جانب مارچ کا اعلان سردار اخترمینگل نے مطالبے کو منوانے کے لیے دو روز کی ملہت کا اعلان کیا تھا۔
کارکنوں کو جہاں بھی روکا گیا وہ وہاں دھرنا دیں، سردار اختر مینگل
اختر مینگل نے پارٹی کارکنوں کو پانچ اپریل کو لک پاس پہنچنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کارکنوں کو جہاں بھی روکا گیا، وہ وہاں دھرنا دیں۔
انھوں نے متنبہ کیا کہ ’اگر حکومت نے ہمیں راستہ نہیں دیا تو ہم اپنا راستہ خود بنائیں گے اور اگر چھ اپریل کو لانگ مارچ کو روکنے کی کوشش کی تو تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔‘
کوئٹہ آنے والی شاہراہوں اور راستوں پر مزید رکاوٹیں
ایک جانب جہاں دھرنے کے شرکا کوئٹہ کی جانب آنے کے لیے بضد ہیں وہاں حکومت کا تاحال فیصلہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ نہیں آنے دے گی۔
دھرنے کے شرکا اس وقت کوئٹہ سے اندازاً 25 سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس کے علاقے کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ تفتان ہائی وے کے سنگم پر موجود ہیں۔
جمعے کے روز دھرنے کے شرکا کی خضدار سے روانگی کے ساتھ انتظامیہ کی جانب سے کوئٹہ کراچی ہائی وے پر لکپاس ٹنل کے اندر رکاوٹیں کھڑی کر کے اس کو بند کیا جبکہ لک پاس سے پرانی شاہراہ پر رکاوٹوں کے علاوہ دشت اور کانک سے براستہ نوحصار کوئٹہ آنے کے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔
جب لانگ مارچ کے شرکا نے لک پاس پر دھرنا دیا تو لک پاس ٹنل کو بدستور بند رکھا گیا لیکن باقی متبادل راستوں سے کسی حد تک لوگوں کو آمدورفت کی اجازت دی گئی مگر گزشتہ دو روز سے کوئٹہ آنے والی تمام شاہراہوں اور راستوں پر رکاوٹوں میں اضافہ کر دیا گیا۔
اس سلسلے میں تعمیراتی مشینوں کے زریعے بڑے بڑے گڑھے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے عام لوگوں کو کوئٹہ اور دیگر شہروں کے درمیان آمدورفت کے حوالے سے پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تاہم حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ یہ رکاوٹیں دھرنے کی وجہ سے کھڑی کردی گئی ہیں اور یہ اقدام عوام کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔
دوسری جانب حکومت بلوچستان نے مستونگ کے ڈپٹی کمشنر ذوہیب کبزئی کو تبدیل کرکے ان کی جگہ پر کیپٹن ریٹائرڈ راجہ اطہر عباس کو مستونگ کا نیا ڈپٹی کمشنر مقرر کیا ہے۔
اگرچہ صرف چند ہفتے بعد ڈپٹی کمشنر کے تبادلے کی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں تاہم گزشتہ ماہ تقریب میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ جو بھی ڈپٹی کمشنر شاہراہوں کو کھولنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گا تو وہ اپنے عہدے پر نہیں رہے گا۔