بلوچستان: بی این پی کا احتجاج، مظاہرین و صحافیوں کو روکا گیا، سڑکیں بند

کوئٹہ (نمائندہ ڈیلی اردو) بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف دیے گئے دھرنے کو کوئٹہ شہر کی جانب بڑھنے سے روکنے کے اقدام پر صوبے کے مختلف علاقوں میں اتوار کے روز شدید احتجاج کیا گیا۔ متعدد شاہراہیں بند کی گئیں، مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جبکہ متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ بی این پی کے مطابق سونا خان کے علاقے سے دو درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جنہیں پولیس اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

دھرنے کے شرکا گزشتہ نو روز سے ضلع مستونگ کے علاقے لکپاس میں موجود ہیں اور اتوار کے روز انہوں نے کوئٹہ کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شاہراہوں پر کنٹینرز رکھ کر اور خندقیں کھود کر راستے بند کر دیے گئے۔ متبادل راستوں کو بھی بند کر دیا گیا تاکہ مظاہرین کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔

صحافیوں کو بھی دھرنے کی کوریج سے روکا گیا۔ فرانسیسی اے ایف پی کے فوٹو گرافر بنارس خان نے بتایا کہ انہیں لکپاس ٹنل سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور راستہ کنٹینرز سے مکمل طور پر بند تھا۔

بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ ریاست نے انہیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن وہ مزاحمت ترک نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق یہ احتجاج ہر صورت جاری رہے گا اور اب پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنایا جائے گا۔

دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بی این پی پر ہٹ دھرمی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے لچک کا مظاہرہ کیا مگر پارٹی کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر سردار اختر مینگل نے کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس تمام صورتحال کے باعث کوئٹہ-کراچی اور کوئٹہ-تفتان شاہراہوں پر سفر کرنے والے شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ تجارتی ٹرک اور عام مسافر گاڑیاں راستوں میں پھنس کر رہ گئی ہیں جبکہ عام شہری پیدل یا موٹر سائیکلوں پر متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔

بی این پی نے پیر کے روز بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ پارٹی رہنما ساجد ترین ایڈووکیٹ کے مطابق حکومت پرامن احتجاج کی اجازت نہیں دے رہی، جو آئینی و جمہوری حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

بلوچستان کی موجودہ صورتحال ایک جانب سیاسی و انسانی حقوق کے مسائل کو نمایاں کر رہی ہے تو دوسری جانب عام شہری اس بحرانی کیفیت میں بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

بلوچستان: بی این پی کا احتجاج شدت اختیار کرگیا، ریاستی طاقت کے استعمال کا الزام، لانگ مارچ روکنے کی کوششیں جاری

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے خواتین کی گرفتاریوں کے خلاف جاری دھرنا اتوار کو اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب پارٹی رہنما سردار اختر مینگل نے ریاست پر کارکنان کو کچلنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم سر جھکانے والے نہیں۔‘‘

بی این پی کے میڈیا سیل کی جانب سے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان کے مطابق اختر مینگل نے لکپاس دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج ہر صورت جاری رہے گا اور ’’اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنائیں گے۔‘‘

پارٹی کے مطابق اتوار کو کوئٹہ کے سونا خان چوک پر سیکیورٹی فورسز نے پُرامن مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ تاہم اس الزام پر بلوچستان حکومت کی جانب سے تاحال کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی۔

بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے، جس کے تحت عوامی اجتماع پر پابندی عائد ہے۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بی این پی کے کارکنان کی جانب سے اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں ’’قانون اپنا راستہ لے گا۔‘‘

شاہد رند کے مطابق حکومت نے دھرنے کے مقام لکپاس پر بی این پی کے نمائندوں سے مذاکرات کیے، جن میں انہیں تین مطالبات پیش کیے گئے، تاہم بی این پی کی قیادت کی جانب سے کوئی لچک نہیں دکھائی گئی۔

دوسری جانب بی این پی نے دعویٰ کیا ہے کہ مستونگ میں لکپاس کے مقام پر لانگ مارچ کے شرکا کو سیکیورٹی اہلکاروں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا، جبکہ دھرنے کو کوئٹہ کی جانب بڑھنے سے روکنے کے لیے راستوں پر کنٹینرز، خندقیں اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔

پارٹی نے پیر کے روز بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

یہ صورت حال ایک جانب سیاسی کشیدگی کو بڑھا رہی ہے تو دوسری جانب عام شہریوں کے لیے سفری مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر کوئٹہ-کراچی اور کوئٹہ-تفتان شاہراہوں پر۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں