پشاور (نمائندگان ڈیلی اردو) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع اور مالاکنڈ ڈویژن میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شدت پسندی کے متعدد واقعات پیش آئے جن میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ دیگر حملوں میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خیبر میں فائرنگ سے پولیس اہلکار ہلاک
قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے علاقے شلوبر میں عسکریت پسندوں نے پولیس اہلکار پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ڈیوٹی پر موجود اہلکار عالم خان آفریدی ہلاک ہوگئے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ واقعے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
اورکزئی میں نائب تحصیل دار کی گاڑی پر بارودی حملہ
ضلع اپر اورکزئی کے علاقے سیفل درہ میں نائب تحصیل دار شوکت کی سرکاری گاڑی پر بارودی مواد سے حملہ کیا گیا، تاہم اس حملے میں نائب تحصیل دار اور ان کے سیکیورٹی اہلکار محفوظ رہے۔ ڈپٹی کمشنر عرفان الدین کے مطابق بارودی مواد سڑک کنارے نصب تھا جس سے گاڑی کو جزوی نقصان پہنچا۔ حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کیا۔
مالاکنڈ میں لیویز چوکی کے قریب دھماکہ
ادھر مالاکنڈ کے بٹ خیلہ کنال روڈ پر ڈی سی آفس کی دیوار کے ساتھ نصب بارودی مواد دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکے کے وقت لیویز کی ایک موبائل وین وہاں سے گزر رہی تھی جو جزوی طور پر متاثر ہوئی، تاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ لیویز ذرائع کے مطابق بارودی مواد ڈی پی او آفس کی دیوار کے قریب نصب کیا گیا تھا۔
شمالی وزیرستان میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن، دو ٹارگٹ کلرز گرفتار
قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں سیکورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے دو ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کرلیا۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد پولیس اور فورسز پر حملوں سمیت کئی ٹارگٹ کلنگ واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ گرفتار افراد سے تفتیش جاری ہے۔
شیواہ میں پولیس گاڑی نذر آتش
اسی ضلع کی تحصیل شیواہ میں کالعدم تنظیم کے شدت پسندوں نے پولیس کی گاڑی کو آگ لگا دی۔ پولیس کے مطابق گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی، تاہم واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ان واقعات سے ایک مرتبہ پھر قبائلی اضلاع اور دیگر حساس علاقوں میں سیکیورٹی صورتحال کے غیر مستحکم ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔ حکام کے مطابق سرچ آپریشنز اور انٹیلیجنس بیسڈ کارروائیاں جاری ہیں تاکہ شدت پسندوں کے نیٹ ورک کو توڑا جا سکے۔
واضح رہے کہ ملک بھر بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، نومبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ توڑنے کے بعد حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔