بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور لاشوں کی برآمدگی: عالمی سطح پر تشویش اور عوامی مزاحمت میں اضافہ

واشنگٹن (ش ح ط) پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ ایک بار پھر شدت اختیار کر چکا ہے، جس پر نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مشکے اور کیچ سے لاشیں برآمد، ورثا کا الزام

ضلع آواران کی تحصیل مشکے سے تعلق رکھنے والے نادر بلوچ کی لاش گزشتہ دنوں برآمد ہوئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق نادر کو ایک روز قبل پاکستانی فورسز نے حراست میں لیا تھا۔ اسی طرح ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے کور ندی میں ایک لاش ملی جس کی شناخت عبدالسلام ولد شیر محمد کے نام سے ہوئی۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ کئی روز سے لاپتہ تھے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان واقعات کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک مہینے میں درجنوں لاشیں اور جعلی مقابلے

بلوچستان سے مقامی ذرائع، صحافیوں اور حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران مشکے سے 9 جبری لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

بارکھان، خضدار اور بلیدہ میں جعلی مقابلوں میں 8 افراد کو ہلاک کیا گیا۔

جعفر ایکسپریس حملے کے بعد کوئٹہ میں 13 نامعلوم لاشیں بغیر شناخت دفنا دی گئیں۔

عوامی ردعمل: مظاہرے، دھرنے اور لانگ مارچ

ان مسلسل واقعات کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ متاثرین کے لواحقین، طلبہ، خواتین، اور انسانی حقوق کے کارکنان کوئٹہ، تربت، گوادر، خضدار، کراچی اور اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں دھرنے دے رہے ہیں۔

2023 کے آخر میں کراچی سے اسلام آباد تک بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا لانگ مارچ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔ مارچ میں شریک مظاہرین نے ریاستی اداروں سے حساب مانگا اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

عالمی ردعمل: انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں، جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ شامل ہیں، پاکستان سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ بند کرے اور ان جرائم میں ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

بی بی سی، الجزیرہ، اور لی موند جیسے عالمی ذرائع ابلاغ نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مستقل رپورٹس شائع کی ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2016 کے درمیان بلوچستان میں تقریباً 1,000 سیاسی کارکنوں اور مشتبہ علیحدگی پسندوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جن میں سے زیادہ تر کوئٹہ، قلات، خضدار اور مکران کے علاقوں میں پائی گئیں۔

لی موند نے 2024 کی ایک رپورٹ میں بلوچستان کے ان خاندانوں کا ذکر کیا جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مہینوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیاں، تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی اور جعلی مقابلے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ عوامی مزاحمت اور عالمی دباؤ کے باوجود اب تک کوئی مؤثر اقدام نظر نہیں آ رہا۔ بلوچستان کے عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے: “ہمارے پیارے بازیاب کرو یا عدالت میں پیش کرو!”

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں