اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستانی دفتر خارجہ نے جمعرات کے روز ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستان کے خلاف افغانستان میں پنپنے والی مبینہ دہشت گردی کے مسئلے کو اجاگر کیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی تمام کوششیں اسی کے سبب رائیگاں ہوتی رہی ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، “ہم تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن یقیناً سب سے بڑی رکاوٹ سکیورٹی کی صورتحال اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔”
دفتر خارجہ کے ترجمان سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کی ایک متوقع میٹنگ کے بارے میں سوال کیا گیا تھا اور اسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات پر بات کی۔
دونوں ممالک نے تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور جے سی سی کی ایک میٹنگ پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم ترجمان نے جے سی سی کے اجلاس کی تاریخ کے بارے میں بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے “معلومات مزید بات چیت کے بعد شیئر کریں گے۔”
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے گزشتہ ماہکابل کا دورہ کیا تھا، جہاں فریقین نے سلامتی، تجارت اور پناہ گزینوں کے مسائل سمیت دیگر اہم امور پر رابطے کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
کابل اور اسلام آباد میں کشیدگی
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے دہشت گردانہ واقعات میں اضافے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے طالبان پر عسکریت پسند گروپوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغان سرزمین سے کام کرنے کی اجازت دینے، سرحد پار حملوں کو تیز کرنے اور سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔
اسلام آباد کو امید تھی کہ طالبان کی زیر قیادت افغانستان زیادہ تعاون پر مبنی علاقائی پارٹنر سامنے لائے گی، تاہم اس کے بعد سے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے سبب پاکستان بہت محتاط ہو گیا ہے۔ ان گروہوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار سفارتی تنازعہ پیدا ہوا ہے اور اقتصادی اور سکیورٹی تعاون پر بھی اس کا سایہ پڑا ہے۔
بھارت کے “متنازعہ قانون” پر پاکستان کا رد عمل
اسلام آباد نے بھارت میں حال ہی میں منظور شدہ وقف (ترمیمی) بل 2025 کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس متنازعہ قانون کو ایک ایسا امتیازی اقدام قرار دیا جو بھارتی مسلمانوں کے مذہبی اور اقتصادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ان کی پسماندگی کو مزید بڑھتا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں تقریبا تمام مسلم تنظیمیں اس قانون کی مخالفت کرتی رہی ہیں اور اس کی منظوری سے پہلے جو احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے، وہ اب بھی مختلف شہروں میں جاری ہیں۔ بھارتی مسلمان اس قانون کو اپنے حقوق غصب کرنے والا بتایا ہے۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا، “وقف ترمیمی ایکٹ کے بارے میں، ہمارا پختہ یقین ہے کہ یہ قانون بھارتی مسلمانوں کے مذہبی اور اقتصادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ خاص طور پر یہ ایکٹ مسلم کمیونٹی کے املاک کے حقوق کو غصب کرتا ہے، اور ممکنہ طور پر ان کو متعدد مساجد، مزارات اور دیگر مقدس مقامات سے محروم کر سکتا ہے۔”
بھارتی پارلیمنٹ نے اس ماہ کے اوائل میں وقف (ترمیمی) بل کو منظوری دی تھی، جسے متعدد مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اسے منسوخ نہ کیا گیا تو اس کے خلاف جیل بھرو تحریک شروع کی جائے گی۔