سرینگر (ڈیلی اردو/اے ایف پی) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں پیر کے روز ایک خوفناک دہشت گرد حملے میں کم از کم 30 سیاح ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حملہ 22 اپریل کو اس وقت کیا گیا جب سیاحوں کا ایک گروپ پہاڑی مقام پر گھومنے کے لیے موجود تھا۔
سینئر پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حملے میں ابتدائی طور پر 28 ہلاکتوں کی اطلاع ملی تھی، تاہم بعد میں یہ تعداد 30 تک پہنچ گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔
حملے کی نوعیت اور متاثرین کا بیان
عینی شاہدین اور ویڈیوز کے مطابق، مسلح افراد نے اچانک فائرنگ شروع کی اور خاص طور پر غیر مسلم سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر سیاحوں کو نشانہ بنانے کے رجحان کی ایک نئی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل جون 2024 میں ہندو یاتریوں کی ایک بس پر حملے میں نو افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوئے تھے۔
پس منظر اور تاریخی حوالہ
پہلگام کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا ایک معروف سیاحتی مقام ہے جسے “کشمیر کا سوئٹزرلینڈ” بھی کہا جاتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں جب کشمیر میں شورش عروج پر تھی، تب بھی یہ علاقہ عسکریت پسندی کا شکار رہا۔ 1995 میں یہاں چھ غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کر لیا گیا تھا جن میں سے چار کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔
سیاسی و حکومتی ردعمل
وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے رہنما رویندر رینا نے کہا کہ “بزدل دہشت گردوں نے نہتے اور معصوم سیاحوں کو نشانہ بنایا، جو صرف کشمیر کی خوبصورتی دیکھنے آئے تھے”۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے واقعے کو “بزدلانہ” قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی جبکہ موجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اسے “حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر سب سے بڑا حملہ” قرار دیا۔
خطے کے گورنر منوج سنہا نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس بزدلانہ اور دہشت گردانہ کارروائی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا‘‘۔
سیاحت پر ممکنہ اثرات
یہ واقعہ کشمیر کی سیاحت کے لیے بڑا دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ 2024 میں اب تک 35 لاکھ سیاح کشمیر کا رخ کر چکے ہیں۔ حکومت نے حالیہ برسوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اقدامات کیے تھے، جن میں جی ٹوئنٹی سیاحت کانفرنس کا انعقاد اور سرحدی علاقوں میں ریزورٹس کی تعمیر شامل ہے۔
ذمہ داری اور تحقیقات
تاحال کسی بھی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن بھارتی حکام اس واقعے کو وادی میں جاری مسلح تحریک سے جوڑ رہے ہیں، جس میں عسکریت پسند بھارت سے آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے ایک بار پھر پاکستان پر پس پردہ حمایت کا الزام عائد کیا ہے، جسے اسلام آباد سختی سے مسترد کرتا رہا ہے۔