کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک ) سندھ ہائیکورٹ نے 40 سے زائد لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے ملک بھر کے حراستی مراکز میں قید ملزمان کی رپورٹ طلب کر تے ہوئے آئندہ سماعت پر ملک بھر کے حراستی مراکز کی رپورٹ نہیں آئی تو فیصلہ جاری کریں گے ۔جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو اور جسٹس کے کے آغا کے روبرو 40 سے زائد لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
لاپتہ سید حسین احمد کی بہن عدالت میں پیش ہوئی اور کہا کہ میرے بھائی کا کیس ملٹری کورٹ میں چل رہا ہے لیکن اس سے ملنے نہیں دیا جاتا، نہ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ کس الزام میں کیس چلایا جارہا ہے، عدالتیں حکم جاری کرتی ہیں مگر کوئی مانتا نہیں ہے کہتے ہیں یہ سب کاغذ کے ٹکڑے ہیں، جب کوئی حکم مانتا ہی نہیں تو بند کردیں یہ عدالتیں، اگر ملوایا نہیں جارہا تو ٹی وی پر لاش ہی دکھا دیں۔
کراچی یونیورسٹی میں اسلامک اسٹیڈیز کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرشید کے 2 بیٹوں کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالرشید نے بتایا کہ میرے دو بیٹے ستمبر 2017 سے لاپتہ ہیں جن کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ہے، ایک بیٹے دانش نے برطانیہ سے ایم بی اے کیا ہے اور دوسرا ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔درخواست گزار عبد الرشید کے وکیل منصف جان ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ اگر عدالت ریاستی اداروں پر جرمانہ کرکے دبا ڈالے تو بازیابی میں مدد مل سکتی ہے۔
عدالت نے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے ملک بھر کے حراستی مراکز میں قید ملزمان کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے اگر آئندہ سماعت پر ملک بھر کے حراستی مراکز کی رپورٹ نہیں آئی تو عدالت خود کوئی فیصلہ جاری کرے گی۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے کہا کہ دیکھیں کس طرح سرکاری اداروں کی نا اہلی کا ملبہ عدالتوں پر آتا ہے۔ کیس کی مزید سماعت 23 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔