کوئٹہ (ویب ڈیسک) بلوچستان میں پولیو کی ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون رضا کار ہلاک اور ایک زخمی ہوگئیں۔
یاد رہے کہ ملک میں 3 روز میں پولیو ٹیم پر حملے کا یہ تیسرا واقعہ ہے، اس سے قبل ایسے 2 واقعات خیبرپختونخوا میں رپورٹ ہوچکے ہیں، جن میں 2 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔
اسسٹنٹ کمشنر سید سمیع آغا نے بتایا کہ فائرنگ کا واقعہ چمن کے علاقے سلطان زئی میں پیش آیا جس میں نامعلوم مسلح افراد نے پولیو ٹیم پر فائرنگ کی۔
انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون پولیو ورکر جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگئیں۔
اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے بعد ملزمان فرار ہوگئے جبکہ پولیو ورکر کی لاش اور زخمی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے سلطان زئی کے علاقے کی ناکہ بندی کرکے علاقے میں سرچ آپریشن کا آغاز کردیا۔
اسسٹنٹ کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے بعد سلطان زئی میں پولیو مہم عارضی طور پر معطل کردی گئی۔
3 روز قبل صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے اسکول میں مبینہ طور پر پولیو ویکسینیشن کے بعد 75 بچوں کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی، جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جبکہ مشتعل افراد نے صحت مرکز میں توڑ پھوڑ کرکے اسے نذر آتش کردیا تھا۔
بعد ازاں پشاور کی مقامی عدالت نے انسداد پولیو مہم کے خلاف مبینہ طور پر پروپیگینڈا کرنے اور بچوں کی طبیعت خرابی کا ڈرامہ رچانے والے ملزم کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
پشاور میں انسداد پولیو مہم کے دوران بچوں کی حالت غیر ہوجانے کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں نامعلوم افراد نے پولیو مہم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
اس کے دوسرے ہی روز ضلع بونیر میں ہونے والے ایک اور حملے میں بھی پولیس اہلکار قتل کردیا گیا تھا۔
یہ بات مدِ نظر رہے کہ پولیو انتہائی موذی وائرس ہے، جو عام طور پر حفظان صحت کی غیرتسلی بخش صورتحال کے باعث منتقل ہوجاتا ہے، اس وائرس کا کوئی علاج نہیں، جس سے زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور اسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے۔
مغرب میں پولیو کا خاتمہ ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن پاکستان میں شدت پسندوں کی جانب سے حفاظتی ویکسین پر پابندی، طبّی عملے کو حملوں کا نشانہ بنانے اور اس ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے پولیو کا مرض ملک میں اب تک موجود ہے۔
یاد رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشنز کے ردعمل کے طور پر طالبان اور دیگر عسکریت پسند متعدد بار پولیو ویکسینیشن سینٹرز سمیت ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنا چکے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ پولیو کے قطرے پاکستانی بچوں کو بانجھ بنانے یا خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کے لیے مغربی ممالک کا بہانہ ہیں۔
خصوصاً قبائلی علاقوں میں اس پریشان کن رجحان میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ابیٹ آباد کے قرب و جوار میں ایک پاکستانی فزیشن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے چلائی جانے والی ایک جعلی ہیپٹائٹس ویکسین مہم نے ہی امریکا کو مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے ہلاک کرنے میں مدد دی۔
خیال رہے کہ پولیو ورکرز کی فرائض کی انجام دہی کے دوران پولیو ورکر کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات سامنے آئے تھے۔
اس سے قبل 18 دسمبر 2012 کو پشاور، موچکو، کراچی کے علاقے گلشنِ بونیر اور راجہ تنویر کالونی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے نیتجے میں 4 خواتین اور ایک مرد ہلاک ہوگئے تھے۔
مذکورہ واقعات میں جانی نقصان ہونے پر عالمی ادارہ صحت نے عارضی طور پر فیلڈ ورک بھی روک دیا تھا۔
پشاور میں 28 مئی 2013 کو پولیو ورکرز پر حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں، اس کے بعد 16 جون کو صوابی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے نتیجے میں 2 پولیو رضاکار زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔
بعدازاں 13 دسمبر کو ضلع جمرود میں فائرنگ کے باعث ایک پولیو ورکر جاں بحق ہوگیا تھا ۔
اسی طرح کراچی کے علاقے قیوم آباد میں 21 جنوری 2014 کو انسدادِ پولیو مہم کے دوران پولیو کی ویکسین پلانے والے ہیلتھ ورکروں کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتجیے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
اس کے بعد 9 دسمبر 2014 کو پنجاب کے شہر فیصل آباد میں نامعلوم افراد نے پولیو ویکسی نیشن ٹیم کے ایک رکن کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
30 نومبر 2015 کو ضلع صوابی ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈسٹرکٹ پولیو کوآرڈینیٹر ڈاکٹر یعقوب ہلاک اور ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد 24 مئی 2017 کو بھی بنوں میں بھی پولیو رضاکار پر فائرنگ کا واقعہ سامنے آیا اور ایک پولیو رضاکار کو قتل کردیا گیا تھا۔