کابل،اسلام آباد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی ) افغان طالبان نے اپنے سینئر کمانڈر حافظ محب اللہ کی گرفتار ی پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کی گرفتاری پاکستان کی جانب سے طالبان کو افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کیلئے دباؤ ڈالنے کا حصہ ہے۔ امریکہ کیساتھ مذاکرات کرنے والے طالبان کے وفد کے رکن حافظ محب اللہ کو چند روز قبل پشاور سے گرفتار کیا گیا، بعدازاں رہا کر دیا گیا۔
ایک سینئر طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ حافظ محب اللہ کی گرفتاری کے بعد پاکستانی حکام نے دیگر طالبان کمانڈرز اور ان کے حامیوں کے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کر دیئے ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حافظ محب اللہ کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ محفوظ مقام پر ہیں۔ طالبان ذرائع کے مطابق خطے میں مفاد رکھنے والے ممالک مذاکرات کے معاملے پر منقسم ہو چکے ہیں، پاکستان اور امریکہ کابل حکومت کیساتھ مذاکرات کیلئے طالبان پر دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ ایران اور قطر طالبان کے موقف کے حامی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کابل حکومت اور امریکہ کی زبان بول رہا ہے
نیوز ایجنسی کے مطابق پاکستانی حکام کے مطابق اسلام آباد اچھی طرح جانتا ہے کہ قیام امن کے بعد افغانستان کو اپنی تباہ حال معیشت چلانے کیلئے بھاری مقدار میں غیر ملکی امداد کی ضرورت ہو گی، اسلئے وہ امریکہ کیساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ غیر ملکی فورسز کے فوری انخلا سے افغان حکومت انہدام کا شکار ہو سکتی ہے، جس سے پیدا ہونیوالا خلا لاکھوں پناہ گزینوں کو سرحدپار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔