بیجنگ (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) ایک رپورٹ کے مطابق چین نے پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے اپنے باشندوں کی سیکیورٹی کے لیے ایک بار پھر اپنی فورس تعینات کرنے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی خصوصی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئرز پر ہونے والے حملے کو چین نے ایک بڑا سیکیورٹی بریچ قرار دیا تھا۔
یہ پاکستان میں چینی مفادات پر لگاتار ہونے والے حملوں میں آخری سب سے بڑا حملہ تھا جس میں دو چینی انجیئنرز سمیت تین افراد ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق ان حملوں کو روکنے میں ناکامی پر چین نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم کے لیے مذاکرات پر مجبور کیا تھا۔
ان مذاکرات سے آگاہ پاکستان کے پانچ سیکیورٹی اور حکومتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ‘رائٹرز’ کو ان تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
اپنی فورس تعینات کرنے پر زور
بات چیت میں شریک ایک سرکاری اہلکار نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ چین نے ایک بار پھر پاکستان میں اپنی فورس تعینات کرنے پر زور دیا ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان نے اس سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ چین اپنی سیکیورٹی فورسز کو پاکستان میں تعینات کرنا چاہتا ہے یا وہ نجی سیکیورٹی کانٹریکٹرز کی خدمات حاصل کرے گا۔
ان مذاکرات کے حوالے سے چین یا پاکستان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پات پر تو اتفاق ہوا ہے کہ دونوں ممالک مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم قائم کریں گے اور پاکستان کو ان میٹنگز میں چینی سیکیورٹی حکام کے شریک ہونے پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن چینی سیکیورٹی فورسز کو پاکستان کے اندر تعینات کرنے کے معاملے پر تاحال اتفاق نہیں ہوا۔
میٹنگ میں شریک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ پاکستان نے چین سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے بجائے پاکستان کو انٹیلی جینس اور سرویلنس کا نظام بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ اُنہیں ان مذاکرات کا علم نہیں ہے۔ تاہم چین، پاکستان میں چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کے ساتھ اپنا سیکیورٹی تعاون جاری رکھے گا۔
‘رائٹرز’ کے مطابق افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے ‘آئی ایس پی آر’ اور وزارتِ داخلہ و منصوبہ بندی نے اس معاملے پر مؤقف کے لیے رابطہ کرنے پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں ممالک نے مستقبل میں حملے روکنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
سیکیورٹی بریچ
رپورٹ کے مطابق چین نے کراچی ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے دھماکے کو سیکیورٹی بریچ قرار دیتے ہوئے پاکستان میں اپنی سیکیورٹی فورس تعینات کرنے کے مطالبے کو دہرایا تھا۔
چھ اکتوبر کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے لگ بھگ 100 کلوگرام بارود سے بھرا ٹرک چینی انجیئنرز کی گاڑی سے ٹکرا دیا تھا۔ پاکستان میں پاور پلانٹ پر کام کرنے والے یہ چینی انجینئرز تھائی لینڈ میں چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس پہنچے تھے۔
ذرائع کے مطابق یہ ٹرک لگ بھگ 40 منٹ تک ہائی سیکیورٹی زون میں موجود رہا جس کے اطراف سینکڑوں سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
ایک سرکاری اہلکار نے ‘رائٹرز’ سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ یہ ایک بڑا سیکیورٹی بریچ تھا جس میں حملہ آور کو ‘اندر سے مدد’ حاصل تھی۔
اُن کے بقول حملے کے سہولت کار کو یہ علم تھا کہ چینی انجیئنرز کب پہنچیں گے اور کس روٹ سے ایئرپورٹ سے باہر نکلیں گے۔
چین، عوامی سطح پر سیکیورٹی معاملات سے متعلق پاکستان سے تعاون کا اظہار کرتا رہا ہے۔ ساتھ ہی سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنانے پر بھی زور دیتا رہا ہے۔
ایک سرکاری اہلکار نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ حالیہ میٹنگ کے دوران چینی حکام نے سیکیورٹی معاملات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے سیکیورٹی پروٹوکولز کو نظرانداز کیا۔
ان پروٹوکولز میں چینی باشندوں کی نقل و حرکت کے دوران بھاری سیکیورٹی کی تعیناتی سمیت دیگر ایس او پیز شامل ہیں۔
پاکستان نے ملک میں چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے لیے ‘اسپیشل پروٹیکشن یونٹ’ بھی تشکیل دے رکھا ہے جس میں پولیس، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار تعینات ہیں۔
پاکستان میں چینی سفارت خانے اور دیگر شہروں میں قونصل خانوں کی اندرونی سیکیورٹی کے لیے چین کے اپنے اہلکار تعینات ہیں۔ البتہ چینی اہل کاروں اور باشندوں کی نقل و حرکت اور ایسے منصوبوں کے لیے پاکستان سیکیورٹی فراہم کرتا ہے جہاں چینی ورکرز کام کر رہے ہیں۔